آج کا نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود پریشان کیوں ؟

آج کا نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود پریشان کیوں ؟

ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب آپ یہ تصوّر کرتے ھیں کہ آپ کہ پاس موجود ڈگری بے مقصد ہے اور آپکا اسکو جلانے کا من بھی کرتا ہے ایسا تبّ ہوتا ہے جب آپ اپنی ڈگری کے دوران پریکٹیکل لائف سے دور ہوتے ہیں آپکے پاس کوئی تجربہ نہیں ہوتا، آپکو کچھ نہیں پتہ ہوتا کہ مارکیٹ کے اندر ہو کیا رہا ہے آپ ایکسپکٹ کرتے ہیں کہ بس میری ڈگری ختم ہوگی تو ایک لش پش نوکری میرا انتظار کر رہی ہوگی معاشرہ میرا استقبال کرنے کے لیے تیار ہے جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے اگر پاکستانی معاشرے کی بات کی جائے تو معذرت کے ساتھ یہ ایک ظالم معاشرہ ہے۔ یہاں اُن لوگوں کے کوئی جگہ نہیں ہے جو عیش وعشرت میں ڈگری مکمل کر کی خالی ہاتھ یہاں قدم رکھتے ہیں۔ یہاں وہ کامیاب ٹھہرتے ہیں جنہوں نے اپنی ڈگری کے دوران در در کی خاک چھانی ہوتی ہے ایسے طالب علم جب ڈگری لے کر مارکیٹ میں آتے ہیں تو انکا اعتماد ہی مختلف نظر آتا ہے وہ جب بات کرتے ہیں تو اُنکی آواز میں جان ہوتی ہے وہ ریجکشن کے خوف سے بہت باہر نکل چکے ہوتے ہیں انہیں اگر کہیں سے رجیکشن ملے بھی تو مسکرا کر چل پڑتے ہیں کہ وہ ناکام نہیں ہونے والے یہ نہ سہی تو کوئی اور جگہ مگر وہ خود کو کہیں نہ کہیں پر فکس کر ہی لیتے ہیں۔ جب دوسری طرف وہ ہیں جو صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا لیے گھوم رہے ہوتے ہیں اُن میں خوف پایا جاتا ہے کہ اگر میری سیلکشن نہ ہوئی تو کیا ہوگا لوگ کیا بولیں گے ، یہ چیز ان سے اُنکا اعتماد چھین لیتی ہے انکے چہرے خوف کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ خود سے پوچھے جانے والے ایک سوال پر ہی کانپنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اُن میں قابلیت نہیں ہوتی وہ قابل ہوتے ہیں مگر ایک چیز جن کی ان میں کمی ہوتی ہے وہ ہے عملی زندگی کہ نہ ہونے کے برابر تجربہ ! جی ہاں اُن کے لیے سب کچھ نیا ہوتا ہے ایسا ہی جیسے وہ ابھی ہی معاشرے کی اس دُنیا میں تشریف لائے ہیں۔ وہ امیدیں جو انہیں نے آئیڈیل رکھی ہوتی ہیں انہیں پانی کی تند و تیز موج بہا کر لے جاتی ہے۔ ایسے میں ایک چیز بچتی ہے وہ ہے ڈپریشن اور وہ سنگین نوعیت تک چلا جاتا ہے کہ کیوں پریشر ہوتا ہے فیملی پریشر، رشتےدار، لوگ سب کاٹ کھانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ بچہ ڈگری لے کر فارغ گھوم رہا ہے ، ماں باپ نے اتنے پیسے خرچ کیے ، کیا فائدہ ہوا، بات اُنکی بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے وہ محنت کرنے ہیں اولاد کے لیے وہ ایکسپیکٹ کرتے ہیں۔ کیا کیا جائے ؟ سوال پیدا ہوتا ہے ، جواب کیا ہوگا ؟ میں ذاتی تجربے کی بنیاد پر بات کر رہا ہوں میں نے سب کچھ ہوتے دیکھا ہے ، میں نے سب کچھ کیا بھی ہے میں اپنی ڈگری کے دوران ہی بہت سی جگہوں پر گیا بہت سے جگہوں سے ریجیکٹ ہوا مگر اب یہ معمولی بات لگتی ہے اب میں رجكشن کو پسند کرتا ہوں اگر کہیں سے ریجکٹ ہوں تو چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ اسلیے کہ مجھے خود پر الحمدُللہ بھروسہ ہے ، مجھے رب پر بھروسہ ہے وہ انسان کے لیے بہتر پلان کرتا ہے۔ اس سب کہانی کا لب لباب یہی ہے کے اپنی ڈگری کے دوران کے وقت کا صحیح سے استعمال کریں آپکے پاس انجوئے کرنے کا بہترین وقت بھی آئے گا اُس وقت کو لانے کے لئے پہلے اپنا وقت کا صحیح استعمال کریں۔ خود کو سیکھائیں اور عملی زندگی میں قدم رکھیں اور دیکھیں کیا ہو رہا ہے ،کیا آپ اس معاشرے میں فٹ آتے ہیں ؟ اگر نہیں تو آپکو فٹ آنا ہوگا۔ آپ کو زبردستی اپنی جگہ بنانی ہوگی۔

آپکی دعا کا طالب
تحریر: سید اعتزاز گیلانی

1 comment on “آج کا نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود پریشان کیوں ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *