ابراہیم ذوق

ابراہیم ذوق

” کلام کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مضامین کے ستارے آسمان سے اتارے ہیں ۔ ملک الشعرائی کا سکہ اس کے نام سے موزوں ہوا اور اس پر یہ نقش ہوا کہ اس پر نظم اردو کا خاتمہ کیا گیا۔” ( محمد حسین آزاد، آب حیات)

استاد ذوق کے بارے میں اس عقیدت مندانہ مبالغے پر فراق صاحب کا تبصرہ یہ تھا کہ آزاد نے ذوق کی شاعری پر ایک جگمگا تا ہوا پردہ ڈال دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی تعریف و تحسین تعریف کرنے والے اور تعریف کا موضوع بننے والے، دونوں کو لے بیٹھتی ہے۔ استاد ذوق کو شہرت اور قبولیت ایسی ملی جو بالعموم کسی بڑے اور عہد آفریں شاعر کے حصے میں آتی ہے۔ لیکن ذوق کو بڑا شاعر رسماً اور تعظیماً بھی نہیں کہا جا سکتا۔ بے شک وہ ایک ہنرمند اور لائق شاعر تھے ، بادشاہ کے استاد تھے، اپنے دور میں ان کی حیثیت بہتوں کے لیے ایک آدرش ، ایک رول ماڈل بھی ی تھی۔ ان کے بہت سے شعروں میں ضرب المثل بننے
اور عوام کی زبان پر چڑھنے کی صلاحیت بہت تھی۔ وہ شعر اس سہولت کے ساتھ کہتے تھے جیسے زندگی کے معمولات ادا کر رہے ہوں ۔ قصیدے میں انہوں نے اپنی قافیہ پیمائی تخیل آفرینی اور کاری گری کی بنیاد پر ایک خاص امتیاز حاصل کیا۔ غزل کے میدان میں ایک سلسلہ سخن وراں کے لیے فیضان کا سر چشمہ اور اخذ و استفادے کا وسیلہ بنے ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ، بجائے اس کے کہ ان کی شاعرانہ حیثیت مستحکم ہوتی ، اُن کا چہرہ دھندلا ہو گیا۔ وہ یاد کیے جاتے ہیں، ایک بھولے ہوئے تجربے کی طرح۔ اپنے اخلاقی مضامین اور بہ قول فراق پنچایتی قسم کے تجربوں اور افکار کے باعث اُن کے اشعار دو ہرائے تو جاتے ہیں، لیکن اُن سے نہ تو بصیرت اور آگہی کی کسی جہت کو پہچانا جاتا ہے نہ وہ اپنے بعد کے زمانوں کا معیار بنتے ہیں۔ اصل میں ذوق کے لیے سب سے مشکل مرحلہ اُن کا اپنا دور ہے، اور اسی دور کی کوکھ سے جنم لینے والی ایک ایسی مثالی اور نا قابل تسخیر تخلیقی حسیت جس کی کمند بہت دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ ذوق کے بارے میں سوچتے وقت ہمارا خیال لامحالہ غالب کی طرف جاتا ہے اور اس تہذیبی اور فکری نشاۃ ثانیہ کی طرف جس کے سائے سے ذوق کا کلام حیرت انگیز حد تک خالی ہے۔ ذوق کی شاعری نہ تو اپنے زمانے کے ذہنی مطالبات اور ایک بدلتی ہوئی شعریات کا حق ادا کرتی ہے نہ آنے والے زمانوں کا۔ ان کی شاعری ان کی اپنی ذات میں محصور ہے یا پھر اُس محدود اور رسمیت زدہ کلچر میں جو کسی بڑی قدر کی تعمیر یا حفاظت کرنے سے یکسر قاصر تھا۔ اسی لیے ، ذوق کی شاعری اپنے بعد آنے والے شاعروں میں بھی صرف ناتواں کندھوں کا بوجھ بنی ۔ غیر رسمی مذاق سخن رکھنے والے کسی بھی قابل ذکر شاعر نے ذوق کی روایت کو آگے بڑھانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ البتہ رسما شعر کہنے والوں میں ذوق کی روایت کا سلسلہ کسی نہ کسی سطح پر ہمیشہ قائم رہا اور اس اعتبار سے، ذوق نے اپنے ہم عصروں سے زیادہ بڑا اور موثر رول ادا کیا۔ عام شاعروں کی اکثریت کے لیے غالب نا قابل تقلید تھے جبکہ ذوق کو اپنی گرفت میں شاید آسانی سے لیا جا سکتا تھا۔ ذوق کے بارے میں فراق صاحب کی دو یاد گار تحریر میں بالترتیب ۱۹۳۷ ء اور ۱۹۴۴ء میں سامنے آئیں ۔ اب ان پر ایک زمانہ گزر چکا ہے، لیکن ذوق کی کامرانیوں اور کوتاہیوں کے رمز تک فراق صاحب جس طرح پہنچے ہیں، اس سے ذوق کے بڑے سے بڑے مداح کے لیے بھی اختلاف آسان نہیں ہوگا اس ضمن میں فراق صاحب کے چند اقتباسات حسب ذیل ہیں:

ذوق کے یہاں جس چیز کی کمی ہے وہ شاعرانہ اندازِ احساس ہے اور یہی کمی ذوق کے انداز بیان کو اس کے دوسرے محاسن کے با وجود شعریت سے محروم رکھتی ہے۔

ذوق کے اشعار سے مثالیں پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں:

لطف زبان لیکن بے نمک شاعری کی مثال یہ تمام اشعار ہیں۔ بیان کا جیتا جاگتا جادو دیکھ لیجے ، مگر شاعری کا جادو یوں نہیں جگایا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔

زبان، زبان، زبان مضمون مضمون، مضمون، لیکن شاعری؟ ! سرے سے تو غائب نہیں لیکن کم ہے، بہت کم۔

۔۔۔۔۔۔

ذوق اردو کا نرالا پن دکھا کر لوگوں کو چونکا دیتے تھے ۔ گہرے جذبات سے متاثر ہونے کی صلاحیت اس زمانے میں بہت کم لوگوں میں تھی۔

۔۔۔۔۔۔

دیکھیے ، ذوق کی ردیفوں میں ٹھیٹھ اردو (یا ٹھیٹھ ہندی) کا ٹھاٹھ ۔ مگر بیان کی خارجیت بھی دیکھیے ۔ سوز و گداز پیدا نہیں ہوسکا، زبان کی شاعری کے یہی خطرے ہیں۔

۔۔۔۔

 

ذوق کے کلام سے ہمارے دماغ کے اس حصے کو ایک ہلکا سا انبساط ، ایک خوشگوار آسودگی ملتی ہے جو پیش پا افتادہ باتوں اور عام خیالات کو ادا کرنے میں غیر معمولی قدرت اظہار کو دیکھ کر ملتی
ہے۔

۔۔۔۔۔۔

وہ ( ذوق) اہل دہلی کے جمہوری مذاق سے بہت قریب نہیں بلکہ اس مذاق کی روح یا اس کے مرکز کو انہوں نے پالیا ہے، اس معاملے میں ذوق کا کوئی ثانی یا حریف نہیں ، اسی سے ذوق استاد ذوق کہلائے۔

۔۔۔۔۔۔

ذوق کے اشعار سے ہمیں وہی فرحت ملتی ہے جو معمولی یا رسمی و روایتی باتوں کے کہنے میں غیر معمولی قوت اظہار کے مظاہرے سے ملتی ہے۔ ایسے شعر عموما ہمیں یاد تو رہ جاتے ہیں۔ ہمارے دماغ میں تو جڑ پکڑ لیتے ہیں، لیکن دل میں جڑ نہیں
پھوڑتے ۔

ظاہر ہے کہ شاعری سے ہمارے تقاضے ایک طرح کی غیر زمانی اور غیر مکانی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ ذوق کو اپنے زمانے میں اور اس زمانے کے عام ادبی کلچر میں جو اہمیت دی گئی ، اس کی بنیادیں بہت پائدار نہیں تھیں۔ بہ قول فراق ، ذوق نے شہرت تو وہ پائی کہ آسمان کو رشک آجائے ، لیکن ایک بڑی حد تک حقیقی شاعری سے محروم رہ کر “ ۔ ذوق کی شاعری کے محاسن سے زیادہ طاقت ور ان کی شاعری کے معایب تھے۔ زبان و بیان کی صحت اور درستگی اس کے تمام امکانات پر حاوی نہیں ہوتی ۔ چنانچہ بڑا شاعر زبان کو بہ ظاہر بگاڑ کر جس طرح معنی اور کیفیت کے مخفی امکانات سے پردہ اٹھاتا ہے وہ چھوٹا شاعر صرف اپنی رسی زبان دانی اور قافیہ پیمائی کی مدد سے نہیں کر پاتا۔ ذوق و داغ سے لے کر اسی سلسلہ سخن کے نمائندوں نوح ناروی اور جوش ملسیانی تک، یہی کہانی پھیلی ہوئی ہے۔ صرف زبان کی شاعری ہماری تاریخ کا تسلسل تو قائم رکھتی ہے لیکن ہماری روایت کی توسیع وتشکیل اور تحفظ میں اُس کا حصہ بہت معمولی ہوتا ہے۔ ذوق نے اگر اپنے آپ کو قصیدے تک محدود رکھا ہوتا یا مثنوی کی صنف اختیار کر لیتے تو ان کا رتبہ کچھ اور ہوتا۔ انہوں نے اپنے پیش رووں میں سودا کے لیے شدید پسندیدگی کے باوجود سودا کی حمیت کے پیچیدہ اور رمز آمیز عناصر سے خود کو تقریبالا تعلق رکھا۔ پامال مضامین ، سامنے کی باتوں اور زبان کی شاعری کے پھیر نے انہیں شاعری میں مقبولیت اور شہرت کی جس سطح پر لے جاکے کھڑا کر لیا تھا، اس سے نہ تو کوئی نیا، اندیکھا راستہ نکلتا تھا ، نہ ہی یہ سطح بہت دیر تک قائم رہ سکتی تھی ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ قلعہ معلی سے براہ راست رابطے کے باوجود اور شاہ ظفر کے کلام کی اصلاح اور تربیت کے باوجود، ذوق نے اپنی حسیت کا دامن ہمیشہ سمیٹے رکھا۔ نہ تو اپنے زمانے کے بدلتے ہوئے مزاج کو دخیل ہونے دیا نہ اپنے سب سے معروف حریف تاب کی راہ اپنانے کا انہیں خیال آیا۔ ناصر کاظمی نے لکھا تھا کہ اس دور میں جب زاغ و زشمن نے قلعہ معلی میں کہرام مچارکھا ہوگا ، غالب پر کیا کیا نہ گزرگئی ہوگی۔ غالب کے یہاں اپنی تخلیقی تنہائی کا جو احساس ہمیشہ موجود رہا اور اس احساس نے انہیں تخلیقی اظہار و ادراک کے جن نادیدہ جہانوں کی راہ دکھائی ، اس تک پہنچنے کے لیے چار دن کی چاندنی اور مذاق عامہ کی کشش ، دونوں سے دوری ضروری ہے۔ آرٹ اور ادب میں عظمتوں کے سلسلے ہی
طرح وجود میں آتے ہیں۔

لیکن ، ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے بھی ، ذوق کی شاعری اور ان کی قائم کردہ روایت نے ہماری ادبی تاریخ میں جو غیر معمولی رول ادا کیا ہے، اس کا اعتراف ہر زمانے میں کیا جائے گا۔ جس طرح تصویر کی حفاظت کے لیے فریم کا وجود دضروری ہے، اسی طرح کسی بھی ادبی اور تہذیبی روایت کو بچائے رکھنے کے لیے اس کے گرد ایک حلقے کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ذوق اور ان کی قبیل کے شعرا حصار بندی کا یہی فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اس قسم کے باکمالوں میں اپنے آپ سے، اپنے زمانے سے، اپنی روایت سے کشمکش کے آثار بالعموم مفقود ہوتے ہیں۔ ان کی حسیت صرف جانے پہچانے راستوں پر آزمائے ہوئے نسخوں کے مطابق ، صرف سائے سائے سفر کرتی ہے ۔ لیکن تجربے اور ادارک و اظہار کی ہموار سطحوں سے آگے کسی اور سطح تک رسائی کی کوشش سے شعوری گریز کے باوجود، تاریخ کی دوسری صف کے شعرا اُس تسلسل کو بچائے رکھنے میں بھی بہر حال معاون ہوتے ہیں جو کسی بھی روایت کے افتخار اور عظمت کی دلیل بنتا ہے۔ غالب کی شاعری اپنے ہم عصروں کے علاوہ بعد کے شاعروں کے لیے بھی ایک بھاری پتھر تھی ، اعصاب اور حوصلوں اور حواس کے پر نچے اڑا دینے والی ، بڑی حد تک نا قابل تقلید اور انتہائی دقت طلب ۔ لیکن ذوق کی شاعری نے ، عام لوگوں کے لیے ہی سہی ، مگر ایک راستہ تو بنایا جس پر قدم رکھتے ہوئے لوگ جھجکتے اور گھبراتے نہ تھے۔ ظاہر ہے کہ ہماری روایت کا سفر جو جاری رہا ، تو اسی لیے کہ ایک صاف شفاف ہموار راستہ سامنے تھا۔ اس راستے کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی، چنانچہ ذوق بھی ہمیشہ اسی عقیدت اور محبت کے ساتھ یاد کیے جاتے رہیں گے۔

ساتھ تیرے ہم بھی جوں سایہ مقرر جائیں گے
آگے جائیں، پیچھے جائیں، جائیں گے پر جائیں گے

 

شمیم حنفی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *