ابوالکلام آزاد ایک تعارف

مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام ابوالکلام محی الدین احمد تھا جبکہ آپ کے پدر بزرگوار سید محمد خیر الدین بن احمد آپ کو فیروز بخت پکارتے تھے ۔ آپ 11 نومبر 1888 کو مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے اور وفات 2 فروری 1958 کو دہلی میں ہوئی ۔
ابتدائی تعلیم اپنے پدر بزرگوار سے حاصل کرنے کے بعد 14 سال کی عمر میں مصر کے مشہور درسگاہ جامعہ ازہر میں تعلیم حاصل کی ۔ عرب سے ہجرت کر کے کلکتہ آئے ۔

آپ کے خاندان والے مذہبی قدامت پسند تھے لیکن آپ ایک آزادنہ مزاج رکھتے تھے جس نے پرانے رستوں پہ چلنے سے گریز کیا بلکہ کثرت مطالعہ سے نئے راہیں نکالی۔ وہ اپنے خود نوشتہ سوانح عمری تذکرہ میں لکھتے ہیں ” میرے لیے ناممکن ہے کہ میں کسی بات پہ یقین لے آؤں جب تک میں اسے اپنے عقل کی کسوٹی پر نئے سرے سے پرکھ نہ لوں ” ۔

آپ کی علمی و ادبی صلاحیتوں کے مولانا الطاف حسین حالی بھی بہت قائل تھے انھوں نے ہمیشہ لسان الصادق کی تعریف کی ۔ نواب محسن الملک آزاد کو ہمیشہ ان الفاظ سے مخاطب کرتے تھے ” خورد سال مگر علم میں پختہ کار ” ۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت بلند قامت ، پر شوکت ، رعب و جلال ، ذہانت اور ذکاوت کا مرقع ہے ۔ وہ پھر پور علمی و ادبی اور سیاسی شخصیت تھے ۔
آپ کانگرس کے بہت متحرک اور زیرک لیڈر تھے جن کے صلاحتیوں کے سبھی قائل تھے ۔ آپ کی معاملہ فہمی کی وجہ گاندھی جی ہر موڑ پہ آپ کی طرف رجوع کرتے تھے ۔ آپ نے تحریک عدم تعاون ، ہندوستان چھوڑو اور خلافت تحریک میں بھی حصہ لیا ۔

صحافت کے میدان میں ایک بے باک صحافی تھے آپ نے 1912 میں الہلال نکلا جو پہلا باتصویر سیاسی رسالہ تھا جس کی تعداد اشاعت 52 ہزار تھے ۔ اس رسالے پہ انگریزوں نے پابندی عائد کردی جس کے بعد آپ نے البلاغ کا اجراء کیا ۔ اس کے علاؤہ بھی دیگر رسائل اور اخبارات میں لکھتے رہیں جن میں پیغام ، لسان الصادق ، وکیل اور امرتسر اہمیت کا حامل ہے ۔

گو کہ مولانا عربی و فارسی میں طاق رکھتے تھے لیکن گفتگو انتہائی رواں اردو میں کرتے تھے ۔ ان کی دلکش گفتگو کے سبھی دلدادہ تھے ۔ جس میں سے علمیت کی گہری چھاپ تھی ۔ وہ لفظ لفظ کی جڑ سے واقفیت رکھتے تھے اور ان کا بہترین استعمال جانتے تھے ۔ گفتگو میں بہترین مثالوں اور استعاروں سے کام لیتے تھے جس سے سنے والے ان کے گرویدہ ہو جاتے۔

عربی اور فارسی کے علاؤہ مولانا انگریزی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے ۔ بائرن کا پسندیدہ شاعر تھا کیونکہ وہ یونان کہ جنگ آزادی میں شریک ہوا اور شہید ہوا ۔ اس نے اپنی نظموں میں آذادی افکار اور آزادی عمل کی تعلیم دی ہے اور انقلابی سوویت میں بھرپور حصہ لیا ۔
کثرت مطالعہ نے مولانا کو خلوت پسند بنایا تھا ۔ یوں تو مولانا کی زندگی میں بہت مصروفیات تھیں ۔ آپ ایک ملنسار ، خلیق اور خوش گفتار ہونے کے باوجود کم دوست رکھتے تھے اور اگرچہ آپ بہترین گفتگو کرنے والے تھے مگر خاموش رہتے تھے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×