ابوالکلام آزاد کی مکتوب نگار
مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں اجمل خاں نے “غبار خاطر” کے دیا ہے میں لکھا ہے “حضرت مولانا کی زندگی مختلف اور متضاد حیثیتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ وہ ایک ہی زندگی اور ایک ہی وقت میں مصنف بھی ہیں ، مقرر بھی ہیں ،مفکر بھی ہیں، فلسفی بھی ہیں ، ادیب بھی ہیں مدبر بھی ہیں اور ساتھ ہی سیاسی جدو جہد کے میدان کے سپہ سالار بھی ہیں۔ لیکن یہاں ہمیں مولانا کی صرف ادبی حیثیت سے سروکار ہے۔ وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ذہن اور حافظے کا یہ حال تھا کہ بارہ برس کی عمر میں فارسی کی تعلیم سے فارغ ہو چکے تھے اور عربی کی مبادیات سے واقف ہو گئے تھے۔ پندرہ برس کے بھی نہ تھے کہ طلبا کا ایک حلقہ ان سے درس لینے لگا تھا۔ سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو وہاں کا رواں سالار رہے، تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ ہوئے تو وہاں بھی سربلند رہے۔ تحریر اور تقریر دونوں پر یکساں عبور
تھا۔
مولانا کے رسائل “الهلال” اور “لبلااغ” نے ملک میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کا ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا۔ ان رسالوں میں مولانا کے اداریے اور مضامین ایسے مدلل اور اتنے پر جوش ہوتے تھے کہ انھیں پڑھ کر اہل وطن کے دلوں میں آزادی کا ولولہ اور جدوجہد کا عزم پیدا ہو جاتا تھا تو دوسری طرف ایوان حکومت لرز اٹھتا تھا۔ مولانا نے ایک عدالت میں تحریری بیان پیش کیا تھا جو بعد کو قول فیصل “ کے نام سے شایع ہوا ۔ اسے پڑھ کر مولانا کی خطابت اور ان کے زور بیان کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ مولانا کے خطوط کے کئی مجموعے شایع ہو چکے ہیں جن میں مکاتیب ابو الکلام آزاد نقش آزاد تبرکات آزاد کاروان خیال اور غبار خاطر خاص طور پر قابل ذکر ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ شہرت ” غبار خاطر“ کے حصے میں آئی۔ ذیل میں اس مجموعے پر تفصیل سے روشنی ڈالی جارہی ہے۔
غبار خاطر
“غبار خاطر“ مولانا آزاد کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو ۱۹۴۳ء اور ۱۹۴۵ء کے درمیان زمانہ اسیری میں لکھے گئے۔ مولانا کی زندگی کا بڑا حصہ قید و بند میں گزرا مگر اس بار قلعہ احمد محمد کی یہ اسیری ہر بار سے زیادہ سخت بھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی، نہ کسی سے خط و کتابت کرنے کی۔ اس لیے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈ نکالا۔ اپنے ایک قدیم دوست مولانا حبیب الرحمٰن شروانی کے نام خط لکھ کر رکھتے رہے۔ جیل سے رہا ہوئے تو یہ خط غبار خاطر“ کے نام سے چھپوا کر انھیں بھیج دیے گئے۔ خاطر کے ایک معنی دل بھی ہیں۔ اس طرح غبار خاطر کا مطلب ہوا دل کا غبار – ایک خط میں شروانی صاحب کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں جانتا ہوں کہ میری صدا میں آپ تک نہیں بیچ سکیں کی، تاہم طبع نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ آپ سن رہے ہوں یا نہ من رہے ہوں میرے ذوق مخاطبت کے لیے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روے سخن آپ کی طرف ہے۔ ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ لوگوں نے نامہ بری کا کام بھی کہو قاصد سے لیا بھی بال کبوتر ہے۔ ہمارے حصے میں عنقا آیا ۔ “ (عنقا ایک خیالی پرنده
ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ مطلب یہ کہ ہمیں کوئی نامہ بر میسر ہی نہ ہوا۔
خطوط یا انشائیے؟ یہ سوال بار بار دہرایا گیا ہے۔ اور واقعی یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ ان خطوں کو کس خانے میں رکھا جائے۔ غبار خاطر میں بعض خطوط ایسے ہیں جو کسی سنجیدہ موضوع پر سنجیدہ انداز میں لکھے گئے۔ جیسے موسیقی کے مولانا نے
بارے میں خط با غبانی کے بارے میں خط۔ ان میں بلاشبہ مضمون کی شان پائی جاتی ہے۔ بعض خط ہلکے پھلکے انداز میں لکھے گئے ہیں جیسے چڑیا چڑے کی کہانی والا خط – یہاں انشائیہ کا انداز غالب ہے۔ اسی لیے بعض اہل نظر نے یہ خیال ظاہر کیا کہ مضمون لکھے ، انشائیے تحریر کیے اور انھیں خط کی شکل دینے کے لیے ہر خط کے شروع میں صدیق مکرم کا القاب ٹانک دیا، آخر میں دستخط فرما دیے ابو الکلام ۔ اور یہ خط “بن گئے۔” اس دعوے کے ثبوت میں ایک دلیل یہ بھی دی جاسکتی ہے کہ خط وہ ہوتا ہے جس میں خط لکھنے والا بھی نظر آئے اور وہ بھی جسے خط لکھا جا رہا ہے۔ غالب کے خط پڑھیے تو مکتوب الیہ بھی صاف نظر آتا ہے، کبھی اسے گد گدایا جا رہا ہے، کبھی سوال جواب ہو رہے ہیں، کہیں اس کے مسائل پر اظہار خیال ہو رہا ہے۔ مولانا کے خط یک طرفہ ہیں۔ مطلب یہ کہ بس وہ اپنی بات کے جا رہے ہیں۔ ان خامیوں کے باوجود غبار خاطر کو خطوط کا مجموعہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کیونکہ بیشتر جگہ خط نگاری کی فضا قائم رہی ہے۔ غالب کے خط پڑھیے تو محسوس ہوتا ہے ایک ایک کر کے مکتوب نگار کے چہرے سے نقاب اترتے جارہے ہیں مگر مولانا اپنی شخصیت کو پردوں میں چھپاتے چلے جاتے ہیں۔ البتہ ایک خط ایسا بھی ہے جس میں مولانا ہمیں اپنے غم میں شریک کرلیتے ہیں۔ ان کی بیگم زلیخا سخت بیمار ہیں۔ اخبار میں ان کی علالت کی خبریں چھپ رہی ہیں۔ مولانا کو بے چینی سے اخبار کا انتظار رہتا ہے۔ جیلر ہر روز اخبار لے کر سیدھا ان کے کمرے میں آتا ہے۔ جیسے ہی اس کے دفتر سے نکلنے کی چاپ سنائی دیتی ہے، ان کا دل دھڑکنے لگے ہے کہ خدا جانے آج اخبار میں زلیخا کے بارے میں کیا چھپا ہو گا لیکن وہ کسی طرح ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتے کہ ان کا صبر و سکون برباد ہو چکا ہے۔ لکھتے ہیں ” میرے صوفے کی پیٹھ دروازے کی طرف تھی۔ اس لیے جب تک آدمی اندر اگر کھڑا نہ ہو جائے میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا۔ جب جیلر آتا تھا میں حسب معمول مسکراتے ہوئے اشارہ کرتا تھا کہ اخبار ٹیبل پر رکھ دے اور پھر لکھنے میں مشغول ہو جاتا گویا اخبار دیکھنے کی کوئی جلدی نہیں۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ ساری ظاہر داریاں دکھاوے کا ایک پارٹ تھیں جس سے دماغ کا ایک مغرورانہ احساس کھیلتا رہتا تھا اور اس لیے کھیلتا رہتا تھا کہ کہیں اس کے دامن صبر و قرار پر بے حالی اور پریشاں خاطری کا کوئی دھیا نہ لگ جائے۔ “ اور مولانا نے یہ دھیا اس دن بھی نہ لگنے دیا جس دن زلیخا کی موت کی خبر اخبار میں شایع ہوئی۔ انسانی کمزوری کا یہ اعتراف ہمیں مولانا کے کتنا نزدیک کر دیتا
ہے اور ہم ان سے کیسی اپنائیت محسوس کرنے لگتے ہیں! ؟
شخصیت کا اظہار کاتیب میں بہر حال ہو کے رہتا ہے۔ مولانا کی زندگی کے بارے میں بہت سی ایسی باتیں ہیں کہ ان خطوط میں نہ لکھی جاتیں تو شاید کسی طرح ہم تک نہ پہنچتیں۔ ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کا خاندان ایسا قدامت پرست تھا کہ باہر کی ہوا کا وہاں گزر بھی نہ تھا۔ لکھتے ہیں ” میری تعلیم ایسے گردو پیش میں ہوئی جو چاروں طرف سے قدامت پرستی اور تقلید کی چار دیواری میں گھرا ہوا تھا اور باہر کی مخالف ہواؤں کا وہاں تک گزر ہی نہ تھا۔ مگر وہ تقلید کی اس
چار دیواری سے نکلے اور انھوں نے اپنا راستہ الگ بنایا۔ ان خطوں سے ہی مولانا کی سحرخیزی کا پتا چلتا ہے۔ یہ عادت انھوں نے اپنے والد سے وراثت میں پائی تھی۔ یہ بات تو سبھی کے علم میں ہے کہ مولانا چائے نوشی کے شوقین تھے مگر یہاں بھی ان کا راستہ سب سے الگ تھا۔ وہ چینی چائے وہائٹ جیس مین پیتے تھے جس کا ترجمہ انھوں نے گوری چنبیلی ” کیا ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ دودھ کے بغیر۔ چینی کے بجاے مصری استعمال کرتے تھے۔ قید خانے میں جب ان کی مرغوب چائے میسر نہ آئی تو دیکھیے کیا حال ہوا ۔ لکھتے ہیں ” مجبور ا ہندوستان کی اسی سیاہ پتی کا جو شاندہ پی رہا ہوں جسے لوگ چائے کے نام سے پکارتے ہیں اور دودھ ڈال کر اس کا گرم
،،شربت بنایا کرتے ہیں۔“
ان خطوں سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مولانا بے حد کم آمیز تھے۔ بھیڑ ہمیشہ انھیں ناگوار رہی۔ بچپن سے وہ تنہا نشینی کے عادی تھے۔ مولانا حسن پرست تھے ۔ پھولوں سے انھیں بے حد پیار تھا۔ غبار خاطر کا ایک خط اس چمن کے بارے میں ہے جو انھوں نے قلعے میں آراستہ کرلیا تھا۔ موسیقی سے انھیں خاص شغف تھا۔ ایسے ماحول کے پروردہ تھے جہاں موسیقی کا جگزر نہ تھا مگر انھوں نے میتا خان سے تعلیم حاصل کی اور ستار بجانے کی مشق کی۔ ایک زمانے میں ان کا معمول رہا کہ رات کو ستار لے کر تاج محل چلے جاتے اور اس کی چھت پر جمنا کے کرخ بیٹھ جاتے۔ پھر جوں ہی چاندنی چینے لگتی ستار پر کوئی گیت چھیڑ دیتے۔
؟
۔
انفرادیت مولانا کے مزاج میں داخل تھی۔ روش عام سے ہٹ کر چلنا ساری زندگی ان کا معمول رہا۔ ایک خط میں لکھتے ہیں ”ساری دنیا سے الٹی چال ہی میرے حصے میں آئی۔ ” اور حقیقتاً ان کا یہی مزاج تھا۔ لوگ جیل خانے میں قید تنہائی کو ایک اذیت ناک سزا خیال کرتے ہیں، مولانا اس تنہائی کو انعام سمجھتے تھے۔ صبح سویرے اُٹھنا نازک طبع اصحاب کو ناگوار ہوتا ہے، مولانا رات کے پچھلے پہر کو بیدار ہو جایا کرتے تھے۔
انانیت مولانا کے رگ وپے میں سرایت کیے ہوئے تھی۔ خود پسندی ان کے مزاج کا خاصہ تھی۔ وہ بلا کے ذہین تھے۔ ہم سبق ان کے ساتھ چل نہ پاتے تھے اور استاد ان کی ذہانت پر حیران ہوتے تھے۔ یہ حال تھا کہ جو پڑھا جزو ذہن بن گیا۔ حافظ ایسا تھا کہ پوری پوری عبارتیں حفظ ہو جاتی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی یاد رہتا تھا کہ یہ عبارت کس صفحے پر ہے۔ غبار خاطر کا مطالعہ کیجے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انھیں اردو فارسی اور عربی کے کتنے شعر یاد تھے۔
جس شخص نے ایسا ذہن پایا ہو وہ اپنی صلاحیت پر ناز کرے اور اس کے مزاج میں انانیت پیدا ہو جائے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ جیل میں طبی معائنے کا ذکر کرتے ہوئے ایک خط میں لکھتے ہیں ”سول سرجن ہر شخص کا سینہ ٹھوک بجا کے دیکھتا رہا کہ کیا آواز نکلتی ہے ؟ معلوم نہیں ، چھروں کی حالت معلوم کرنی چاہتا تھا یا دلوں کی مجھ سے بھی معائنے کی درخواست کی۔ میں نے کہا میرا سینہ دیکھنا ہے سود ہے۔ اگر دماغ کے دیکھنے کا کوئی آلہ ساتھ ہے تو کام میں لائیے۔”
فکر و فلسفہ ایک موج تہ نشیں کی طرح غبار خاطر کے ہر صفحے پر کار فرما ہے اور یہی مولانا کا مزاج ہے۔ ہر وقت سوچنا اور مسلسل سوچنا ساری زندگی مولانا کی عادت رہی۔ غبار خاطر کے بعض خطوں پر تو فلسفہ پوری طرح حاوی ہے اور بعض خطوں میں اس کی ہلکی ہلکی لہریں نظر آتی ہیں۔
اس سلسلے کا سب سے اہم خط وہ ہے جس میں فلسفہ، سائنس اور مذہب تینوں کا موازنہ کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ سائنس کا علم ناقص ہے ، فلسفہ شکوک کے کا دروازے کھول دیتا ہے۔ البتہ مذہب ایک ایسی دیوار ہے کہ انسان کی دکھتی ہوئی پیٹھ اس کا سہارا لے سکتی ہے۔ چڑیا چڑے کی کہانی بظاہر ایک سیدھی سادی کہانی ہے لیکن یہاں فلسفہ خودی اور فلسفہ جہد و عمل پیش کیا گیا ہے۔ وہ حوصلہ مند چڑا جسے مولانا نے ” قلندر “ کا خطاب دیا ہے دراصل ایک رہنما ہے اور ثابت یہ کرنا ہے کہ جب رہنما کے قدم منزل کی طرف اُٹھ جاتے ہیں تو قوم کا پورا کارواں اس
کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ ایک خط میں خوشی کا فلسفہ پیش کیا گیا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اصل خوشی جسم کی نہیں دماغ کی خوشی ہے جو قید و بند میں بھی برقرار رہتی ہے کیونکہ قید خانے کی چار دیواری کے اندر بھی سورج ہر روز چمکتا ہے اور چاندنی راتوں نے کبھی قیدی اور غیر قیدی میں امتیاز نہیں کیا۔” یہ تو صرف چند مثالیں ہو ئیں ورنہ اصلیت یہ ہے کہ غبار خاطر مولانا کے فلسفیانہ افکار سے لبریز ہے۔
اسلوب نگارش
مولانا ابو الکلام آزاد کی انشا پردازی کا کمال یہ ہے کہ ان کی تحریر کے انداز ایک سے زیادہ ہیں۔ وہ متعدد اسالیب نثر پر قدرت رکھتے ہیں اور حسب ضرورت انھیں کامیابی کے ساتھ برتے ہیں۔ الہلال و البلاغ کے اداریے اور مضامین گھن گرج اور پُر شکوہ انداز بیان کے متقاضی تھے۔ وہاں نیز قول فیصل میں یہی اسلوب پایا جاتا ہے ”تذکرنے کے لیے علمی طرز تحریر کی ضرورت تھی۔ وہ وہاں موجود ہے۔ غبار خاطر خطوط کا مجموعہ ہے لیکن ان خطوط کے موضوعات الگ الگ ہیں اور ہر موضوع کا تقاضا بھی الگ ہے اس لیے موضوع کی مناسبت سے تحریر کے مختلف اسلوب اختیار کیے گئے ہیں۔ کہیں آسان عام فہم زبان ہے تو کہیں فارسی آمیز علمی زبان تو کہیں شعریت کا غلبہ ہے۔
عام فہم زبان غبار خاطر کے کئی خطوں میں نظر آتی ہے مگرو ہیں جہاں موضوع اس کا مطالبہ کرتا ہے۔ مثلاً چڑیا چڑے کی کہانی ہر چند ایک علامتی کہانی ہے مگر ہے بهر حال کہانی۔ یہاں واقعات زیادہ اہم ہیں اور ان پر توجہ کا مرکوز رہنا ضروری ہے۔ اس لیے یہاں سادہ و سهمل زبان استعمال کی گئی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا اس
زبان پر بھی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ ایک اور خط کا اقتباس ملاحظہ ہو : لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لیے کام میں لائیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دیتا۔ یہاں اس سے زیادہ سل کام
کوئی نہ ہوا کہ مر جائیے اور اس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہے۔ جس نے یہ مشکل حل کرلی اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام
دے رہا۔”
فارسی آمیز زبان تو غبار خاطر کے ہر صفحے پر نظر آتی ہے۔ عربی فارسی پر مولانا کو کامل عبور حاصل تھا۔ وہ ان زبانوں کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ ان کی تقریباً تمام تحریر میں اس کی گواہ ہیں۔ غبار خاطر کا پہلا خط ایک فارسی شعر سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد صرف ایک جملہ ہے جو یہاں نقل کیا جاتا ہے : ول حکایتوں سے لبریز ہے مگر زبان درماندہ فرصت کو یا راے سخن نہیں۔
مہلت کا منتظر ہوں۔ ابو الکلام”
شعری زبان تو غبار خاطر کا وصف خاص ہے۔ یہی وہ صفت ہے جس کے سبب یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی۔ ایک زمانے تک اس طرز تحریر کی پیروی کی جاتی رہی بلکہ آج بھی کی جاتی ہے۔ مکتوب نگار کی حیثیت سے غالب کا رتبہ آزاد سے بلند ہے لیکن خطوط غالب سے زیادہ مکاتیب آزاد کی پیروی کی جاتی رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ لائبریری میں غبار خاطر کا مقام نثر کے خانے میں نہیں ، شاعری کے خانے میں ہونا چاہیے۔ غبار خاطر میں قدم قدم پر ایسے جملے ملتے ہیں جنھیں شعر کہنا زیادہ درست ہے۔ ان جملوں کو پڑھ کر قاری کے منہ سے اس طرح بے ساختہ دار نکلتی ہے جیسے غزل کے شعر کو سن کرہی نکل سکتی ہے۔ دیکھیے چند مثالیں :
ا
ود اس کارخانہ ہزار شیوه و رنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں
ناکہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کیے جاتے ہیں تاکہ کھولے جائیں۔ م کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم پھولوں کی سیج پر لوٹتے ہیں اور راحت نہیں پاتے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کانٹوں پر دوڑتے ہیں اور ہر چھن میں راحت و سرور کی ایک دولت پاتے ہیں۔ غبار خاطر میں شعروں کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے اور اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ شعر یا مصرعے کو اس طرح استعمال کیا گیا ہے کہ اس سے جملہ پورا اور مطلب عمل ہو جاتا ہے مثلاً : میں نے کائنڈ لے لیا کہ دیکھوں کس جس کی مرے سر محضر لگی ہوئی۔ دوسری صورت یہ کہ عبارت میں کوئی بات کسی اس پر کوئی شعر یاد آگیا تو وہ دہرادیا۔ یہ شعری اسلوب غبار خاطر کے اثر سے اردو میں بہت مقبول ہوا۔ مولانا کے شعری اسلوب کا ایک تیسرا روپ بھی ہے وہ یہ کہ شعر سے کوئی ترکیب یا الفاظ کا مجموعہ مستعار لیا اور نثر میں استعمال کر لیا۔
کہیں
شعری وسائل سے مولانا خوب کام لیتے ہیں۔ کہیں تشبیه و استعارہ ہے مجاز و کنایہ ہے کہیں لفظی و معنوی صنائع ہیں تو کہیں تجسیم – تجسیم سے مراد یہ ہے کہ کسی بے جان شے کو جاندار مان لیتے ہیں۔ ان وسائل کے استعمال سے نثر میں شعر کا سا حسن پیدا ہو جاتا ہے اور قاری اس طرح لطف اندوز ہوتا ہے جیسے وہ کوئی شعر پڑھ رہا ہو۔ اب ملاحظہ ہوں چند مثالیں :
میں جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو، جہاں شام ہر روز پرده شب میں چھپ جاتی ہو جس کی راتیں کبھی ستاروں کی قندیلوں سے جگر گانے لگتی ہوں کبھی چاندنی کی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہوں، جہاں در پر ہر روز چھکے ، شفق ہر روز نکھرے پرند ہر صبح و شام چہکیں، اسے قید خانہ
ہونے پر بھی عیش و مسرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے؟ میری پچھلی زندگی مجھے قید خانے کے دروازے تک پہنچا کر واپس چلی
گئی۔
طنز و ظرافت کے بعض بہت اچھے نمونے غبار خاطر میں مل جاتے ہیں۔ ان کے مزاج میں انانیت اور خود پسندی بلا کی تھی۔ انھیں اپنے ذہن کی براقی پر ناز تھا۔ اپنی معاملہ قسمی اور دور اندیشی کے آپ مداح تھے۔ ایسا انسان دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور یہ حقارت طنز کو جنم دیتی ہے۔ یہ طنز مولانا کی اکثر تحریروں میں نظر آتا ہے اور ایسی عبارتوں کو جنم دیتا ہے کہ “ہمیشہ عقل مند آدمی کا ذ کا ہو گا۔ بھیٹر یو قوفوں کی ہی رہے گی۔ “یا ”ماننے پر آئیں گے تو گالے کو خدا مان لیں گے۔
انکار پر آئیں گے تو مسیح کو سولی پر چڑھا دیں گے۔”
ظرافت سے بھر پور مولانا کا وہ خط ہے جس میں باورچی کی تلاش کا ذکر ہے۔ لکھتے ہیں جیل کا سپرنٹنڈنٹ آخر کار ایک باروچی کو ڈھونڈ لایا مگر جب پتا چلا کہ اب باہر جانا ممکن نہیں تو یہ حال ہوا کہ وہ کھانا کیا پکاتا اپنے ہوش و حواس کا مسالہ کوٹنے لگا۔ “ اور ”قید خانے میں جو اسے ایک رات دن قید و بند کے توے پر سینکا گیا تو بھوننے تلنے کی ساری ترکیبیں بھول گیا۔ اس احمق کو کیا معلوم تھا کہ ساٹھ روپے کے عشق میں یہ پاپڑ بیلنے پڑیں گے؟ اس ابتداے عشق ہی نے کچومر نکال دیا تھا، قلعے تک پہنچتے پہنچتے قلیہ بھی تیار ہو گیا۔ دلچسپ واقعے کے علاوہ رعایت لفظی نے
بھی اس خط میں بھر پور ظرافت پیدا کر دی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ غبار خاطر کی دلکشی کا اصل راز اس کی طرز تحریر میں ہے۔ تخلیقی نثر کا یہ شہکار صدیوں تک جمال پرستوں کو انبساط و سرور کی دولت عطا کرتا اور اس کے عوض ان سے خراج تحسین وصول کرتا رہے گا۔ نیاز فتح پوری نے مولانا کے نام ایک خط میں درست ہی لکھا تھا : معمولا نا! آپ کا اسلوب بیان مجھ سے تو وداع جاں چاہتا ہے۔ اگر آپ کی
زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل من مزید کہتا رہوں گا۔”
اس مختصر مضمون کو ہم مولانا حسرت موہانی کے اس شعر پر ختم کرتے ہیں جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا ۔
تحریر از ڈاکٹر سنبل نگار