اتارا تن سے سر تو نے تو اس شامت کے مارے کا
ارے احسان مانوں سر سے میں تنکا اتارے کا
ستارے دیکھ کر موتی تمہارے گوش وارے کا
کہیں ہم کو ملا یہ نور صدقہ اس ستارے کا
مرے طالع میں ہے کیا کام اے گردوں ستارے کا
چمک جانا ہے کافی آتش دل کے شرارے کا
جسے کہتے ہیں بحر عشق اس کے دو کنارے ہیں
ازل نام اس کنارے کا ابد نام اس کنارے کا
مری منزل میں تو ماہ سریع السیر ہے جاناں
رکھے ہے حکم گھر میں دشمنوں کے قطب تارے کا
نفس ہے جادہ عمر رواں جس طرح سے گزرے
یہاں پوچھے ہے اے گمراہ کیا رستہ گزارے کا
فقط تار نفس کا ذوق خط جادہ کافی ہے
پئے عمر رواں کیا چاہیے رستہ گزارے کا
ابراہیم ذوق