اجنبی رہتے نہیں ہیں آشنا ہوتے نہیں
ہم جدا ہو کر بھی لگتا ہے جدا ہوتے نہیں
اہل دل کے ساتھ وہ بیماری دل بھی گئی
لوگ اب ایسے مرض میں مبتلا ہوتے نہیں
یوں پکارو جیسے جنگل پر برستی چاندنی
وصل کے در دستکیں دینے سے وا ہوتے نہیں
احمد مشتاق
اجنبی رہتے نہیں ہیں آشنا ہوتے نہیں
ہم جدا ہو کر بھی لگتا ہے جدا ہوتے نہیں
اہل دل کے ساتھ وہ بیماری دل بھی گئی
لوگ اب ایسے مرض میں مبتلا ہوتے نہیں
یوں پکارو جیسے جنگل پر برستی چاندنی
وصل کے در دستکیں دینے سے وا ہوتے نہیں
احمد مشتاق
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ