احتشام حسین
الہ آباد یونیورسٹی کے ایک مشاعرے میں جانا ہوا۔ الہ آباد میں اویس احمد صاحب ادیب کے یہاں صبح کی چاہ ایک سبزہ زار پر پی رہے تھے۔کہ ایک نستعلیق ٹائپ کے نوجوان ان اپنے تجلی طور چمکانے والے دانتوں سے ہنستے ہوئے تشریف لائے اور ایک کرسی پر بیٹھنے ہی والے تھے کہ اویس صاحب نے” احتشام صاحب” کا نعرہ بلند کرکے گرم گرم چاء ان کے پیروں پر گرا دی۔وہ متانت سے کچھ تھوڑا سا اچک کر ایک طرف ہو گئے۔ اویس صاحب نے بجائے معذرت کے فرمایا ۔” آپ سے ملیے شوکت صاحب تھانوی” ۔ وہ مصافحہ کی نیت سے اپنا ہاتھ لے کر بڑھے ہے اور آخر وہی ہوا جس کو مصافحہ کہتے ہیں۔ یہ تھی احتشام صاحب سے پہلی ملاقات۔ اس کے بعد مشاعروں میں کبھی گورکھپور میں مل گئے کبھی لکھنؤ میں کبھی اندھیرے میں کبھی اجالے میں۔ یکایک معلوم ہوا ، کہ احتشام صاحب نے پڑھنا ختم کرکے پڑھانا شروع کر دیا ہے اور لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو فارسی میں لیکچرار ہیں ۔ پہلی وہ صرف ادیب تھے اب ترقی پسند ادب کے علمبرداروں میں نظر آتے ہیں ۔ لکھنو ریڈیو اسٹیشن پر اکثر ملاقاتیں نصیب ہو جاتی تھی۔ نیا اور پرانا ادب تھوڑی دیر کے لیے درمیان سے اٹھ جاتا تھا م اور بے ادبی کا خلوص دونوں طرف کارفرما نظر آتا تھا ۔ احتشام صاحب میں پہلے کافی انفرادیت تھی مگر اب آپ شادی کر بیٹھے ہیں ہیں لہذا کچھ قرار واقعی سے ہو کر رہ گئے ہیں۔ اگر بچوں کی ریل پیل شروع ہوگئی۔ تو نیا اور پرانا دونوں قسم کا ادب چراغ رخ زیبا لے کراحتشام صاحب کو ڈھونڈے گا اور احتشام کسی گوشے میں بیک وقت “والدین”بنے ہوئے نظر آئیں گے۔
شوکت تھانوی