احسان دانش

ہم وطن نوجوان شاعر احسان دانش جس نے زندگی کے اس مختصر سے دور میں ان تمام افتادوں کا مقابلہ کر لیا ہے ہے۔ جو ایک اوسط قسم کے کے بدقسمت انسان کو بڑھاپے تک نصیب ہوا کرتی ہے ۔احسان نے مزدوری اور مزدور کو اپنی شاعری کا محض موضوع نہیں بنایا ہے بلکہ مزدوری اس شاعر کو خود اپنا موضوع پہلے ہی بنا چکی ہے ۔ ٹوکریاں ڈھونے کے بعد اب دواوین ڈھو رہے ہیں ۔ سر پر پہلے بوجھ رہا کرتے تھے ۔ اب سر تو خالی ہے مگر دماغ میں سودائے سخن۔ آواز اچھی ہے اور ترنم میں کہیں کہیں پر وہ ٹیس نمایاں ہو جاتی ہے جس جو ترقی پسند ادب کا طرہ امتیاز تسلیم کیا گیا ہے ۔
احسان پہلے مزدور تھے اور اب شاعر ہیں۔ سوتے تو خیر اب تک زمین پر ہیں ۔مگر اب لحاف ریشمی ہوتا ہے اور جیب میں گھڑی بھی نظر آتی ہے تاکہ تضیع اوقات کی گواہی دیتی رہے ۔ مصائب اس قدر اٹھائے ہیں کہ اب جو راحت نصیب ہوتی ہے تو اس کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ معاملات میں دانستہ جھوٹ نہیں بولتے مگر کلام کے مجموعوں میں جو تصاویر شامل ہیں وہ یقیناً جھوٹی ہیں ۔ احسان کو دیدہ زیبی سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ یہاں تک کہ ہزاروں سلام پہنچیں اس خاتون مشرق کو جو احسان کے بچوں کی ماں تک ہے ،احسان کی رفیقہ حیات ہونا تو درکنار
اے ماؤ بہنو بیٹیو دنیا کی عزت تم سے ہے
احسان خوب کہتے ہیں مگر خود ان کو نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کون سی بات خوب کہہ گئے ہیں جس کسی نے جو ترمیم پیش کر دی آپ قبول کر لیتے ہیں اور اسی طرح اپنی بے شمار نظموں کا ناس مار چکے ہیں ۔ خود اپنے شاگرد کو بھی اپنا استاد تسلیم کر لینے میں کبھی نہیں شرماتے ۔ اپنے اوپر اعتماد تو بالکل ہے ہی نہیں اگر یہ کمی نہ ہوتی تو احسان آج اپنی موجودہ جگہ سے زیادہ اور کہیں زیادہ بلند نظر آتے۔

 

شوکت تھانوی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×