احمد فراز ( میری ہزاروں آوازیں ہیں)

احمد فراز ( میری ہزاروں آوازیں ہیں)

معروف شخصیتوں اور تخلیقات کے گردہ کبھی کبھی ، ایک رمز آمیز دائرہ ، ایک ہالہ سا بن جاتا ہے ۔ ہم کبھی تو اس ہالے کو اس شخصیت تک رسائی یا اس سے شناسائی کے ایک وسیلے کے طور پر دیکھتے ہیں، اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ اس شخصیت یا تخلیق تک پہنچنے کے لیے اسے توڑنا منتشر کرناضروری ہو جاتا ہے۔ احمد فراز کی شاعری کے گرد سب سے زیادہ دھند ان کی بے حساب شہرت اور مقبولیت نے پھیلائی ہے۔ ہمارے زمانے میں اچھی نظم اور اچھی غزل کہنے والے منیر نیازی سے لے کر احمد مشتاق تک اور لوگ بھی ہیں۔ لیکن ان کے اصاف اور ان کی پہچان کے نقش و نشان بہت صاف اور واضح ہیں۔ کہیں کوئی متنازعہ پیچ ، کسی طرح کا دھندلکا نہیں ہے۔ لیکن فراز کی عام مقبولیت اور بے حساب شہرت نے ان کی شاعری پر سنجیدہ سوچ بچار کے راستے میں خاصی مشکلات پیدا کر دی ہیں ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال فیض صاحب کے معاملے میں بھی سامنے آئی تھی۔ ان کے ہم عصروں میں ن م راشد سے سردار جعفری تک ، ان کی شہرت اور مقبولیت ایک مستقل مسئلہ بنی رہی۔ کسی نے ان کو فکری تساہل کا قصور وار ٹھہرایا کسی نے خارجی آرائش و زیبائش کو ان کی شاعری کی عام کشش کا سبب بتایا ۔ لیکن فیض صاحب اپنے خلقی اعتماد اور استغنا کے ساتھ اپنا شعر کہتے رہے۔ انھیں کبھی بھی اس بات سے غرض نہیں رہی کہ ان کے بعض جید
معاصرین کی طرف سے ان کی شاعری پر جو اعتراضات وارد ہوے ہیں ، ان کی حقیقت کیا ہے۔ احمد فراز ، فیض صاحب کے بعد ہمارے مقبول ترین شاعر ہیں۔ انھیں جیتے جی ایسی شہرت ملی ہے جو افسانہ بن جاتی ہے۔ فراز کے بعض معاصرین بھی ان کی شاعری پر معترض ہوتے ہیں، اور 1960ء کے بعد کی نظم اور غزل کے جائزوں میں اکثر فراز سے زیادہ ذکر ایسوں کا بھی ہوتا ہے جو ان کی شاعرانہ حیثیت کون نہیں پہنچتے لیکن فراز کے تخلیقی انہماک میں اس واقعے سے بھی فرق نہیں آیا۔ اس ضمن میں پہلی بات تو یہی ہے کہ چالیس پینتالیس برس تک مسلسل اتنی شہرت اور قبولیت کا بوجھ سنبھالے رکھنا، بجائے خود ایک کارنامہ ہے۔ دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ فراز کی شاعری کے اوصاف اور محاسن کی بنیادوں تک پہنچنے کی کوئی باضابطہ کوشش ابھی تک تو ہوئی نہیں۔ غیر معمولی شہرت اور بے تحاشا مقبولیت اس شاعری کا حجاب بن کر رہ گئی ہے۔ میرا اپنا تعارف اس شاعری سے تقریباً انھی دنوں ہوا جب فراز کی ابتدائی نظمیں اور غزلیں پہلے پہل شائع ہوئیں۔ اور میرے اوّلین تاثر کی تصدیق اس وقت ہوئی جب ” فراق کی تازہ تصویر
دیکھ کر ” کہی جانے والی ان کی ایک نظم سامنے آئی۔

اک سنگ تراش جس نے برسوں
ہیروں کی طرح صنم تراشے
آج اپنے صنم کدے میں تنہا
مجبور ، نڈھال ، زخم خوردہ
دن رات پڑا کر اہتا ہے ۔

 

وغیرہ وغیرہ ۔ خود فراق صاحب پر فراز کی اس نظم نے اتنا گہرا تاثر مرتب کیا تھا کہ کئی روز تک وہ اپنے ہی ملاقاتی کو یہ نظم سناتے رہے۔ اصل میں فراز کی ایک خوبی جسے وہ شروع سے اب تک یکساں کامیابی کے ساتھ نبھائے جارہے ہیں اپنے احساسات کو رنگوں اور شبیہوں کے واسطے سے بیان کرنے کا غیر معمولی ملکہ ہے۔ کسی بھی کیفیت یا تجربے کے اظہار میں تاثیر اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کیفیت یا تجربے کا معروضی تلازمہ ہاتھ آجائے۔ فراز کی شاعری کا بنیادی خمیر اس کا تصوراتی (conceptual) ہونا ہے، گویا کہ اپنے ہر شعر کے ذریعے وہ اپنی کسی ذہنی رو، کسی خیال کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور ان کا ہر شعر اپنی ایک خاص فکری اساس رکھتا ہے، لیکن یہ شاعری محض خیال کی شاعری نہیں ہے۔ خیال محض کی شاعری تو وہ ہوتی ہے جو ایک ویران اور بے برگ و بار باطن کی سطح سے نمودار ہوتی ہے اور پڑھنے والے کے احساسات کو منور کیے بغیر اس کے شعور کی بس بیرونی پرت کو چھوتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ فراق صاحب کا یہ تاثر کہ ۔ “فراز کے وجدان کی اور جمالیاتی شعور کی ایک خاص شخصیت سے جو نہایت دلکش خدو خال سے مزین ہے” اس حقیقت کی تائید کرتا ہے کہ فراز کے اشعار صرف ان کی سوچ کو بے نقاب نہیں کرتے ، ان کے پورے وجود کی تصویر سامنے لاتے ہیں۔ اور فراز کی شاعرانہ شخصیت کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے چند بنیادی اوصاف کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ شخصیت اپنی تراش خراش، نفاست اور اشعار سے ایک طرح کی تکمیل کا احساس جگانے کے باوجود نہ تو صرف کلا سیکی ہے نہ صرف رومانی ۔ کلاسیکی رچاؤ اور رومانیت فراز کی شاعری کے صرف ایک پہلو سے تعبیر کیے جاسکتے ہیں۔ یہ دونوں خوبیاں مل کر ان کی نظموں ، غزلوں میں اثر انگیزی کی اسی جادوئی کیفیت کا سبب بنتی ہیں جو صرف ذہنی تجربوں پر تکیہ کرنے والی شاعری کا مقسوم نہیں ہوتی۔ احمد ندیم قاسمی نے لکھا ہے کہ ” فراز نے قدیم وجدید کے نہایت حسین اور دل آویز مرکب پر کامیاب تجربے کیے ہیں ” ۔ بظاہر یہ رائے رکی اور صرف ایک تاثر پر ینی محسوس ہوتی ہے لیکن واقعہ یہی ہے کہ فراز نے اپنی شاعری کو نہ تو کسی خاص وضع کا پابند ہونے دیا نہ قدیم وجدید کے مابین کوئی حد مقرر کی ۔ ہمارے عہد کے عام جدید شاعروں کے برعکس، فراز کی شاعری کا عقبی پردہ مغربی زبانوں کے ادب یا شعری ہیتوں کے بجائے فارسی اور اردو کی کلاسیکی شاعری نے مہیا کیا ہے۔ ان کی زبان و بیان میں فارسی غزل اور اردو کی کلاسیکی غزل کے رنگ صاف جھلکتے ہیں۔ اساتذہ کی زمینوں میں انھوں نے بہت سی غزلیں کہی ہیں اور ان میں بھی ان کی ترجیحات سوداء ، مصحفی ، آتش، غالب کے قائم کردہ اسالیب کی پابند ہیں۔ فراز کا امتیاز یہ ہے کہ اساتذہ کی پیروی کرتے ہوئے بھی وہ اپنا تشخص محفوظ رکھتے ہیں اور اساتذہ کے شب چراغ کی روشنی سے فیض اٹھانے کے باوجود انی تخلیقیت کو بجھنے نہیں دیتے ۔ مثال کے طور پر ان کی غزل سے چند اشعار دیکھیے

کج اداؤں کی عنایت ہے کہ ہم سے عشاق
کبھی دیوار کے پیچھے کبھی دیوار کے بیچ

تم ہو نا خوش تو یہاں کون ہے خوش پھر بھی فراز
لوگ رہتے ہیں اسی شہر دل آزار کے بیچ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محبتوں کا بھی موسم ہے، جب گزر جائے
سب اپنے اپنے گھروں کو تلاش کرتے ہیں

سنا ہے کل جنھیں دستار افتخار ملی
وہ آج اپنے سروں کو تلاش کرتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔

رات کیا باقی عمر کی نیند اڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب تو ہمیں بھی ترک مراسم کا دکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تو کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پر عزتِ سادات بھی دستار کے ساتھ

ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنے سکوں کے دن کبھی دیکھے نہ تھے فراز آسودگی نے مجھ کو پریشان کر دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وصل و ہجراں ہیں اور دنیائیں ان زمانوں میں ماہ و سال کہاں

۔۔۔۔۔۔

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

رہ وفا میں حریف خرام کوئی تو ہو
سو اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں

۔۔۔۔۔

مرے حریف کھلے دل سے اب شکست بھی مان
نہ یہ کہ فرط ندامت سے منہ پہ چادر کھینچ

۔۔۔۔

رعونت تا بکے اے دل فگاراں دیکھنا
اب گرے گا طرۂ سلطاں سر سلطاں سمیت

۔۔۔۔۔۔۔۔

آ فصیل شهر سے دیکھیں غنیم شہر کو
شہر جلتا ہو تو تجھ کو بام پر دیکھے گا کون

ان اشعار سے جو موزیک بنتا ہے اس سے ایک رومانی ، ایک نو کلاسیکی ، ایک جدید ،ایک باغی شاعر کی تصویر ایک ساتھ سامنے آتی ہے۔ فراز کی حسیت کے ایک ساتھ کئی نام ہیں اور ایک ساتھ کئی چہرے۔ ان میں سب سے نمایاں صورتیں دو ہیں، ایک تو کسی از لی اور ابدی عاشق کی ، دوسری ایک ریڈیکل ، حساس، جذباتی انقلابی کی جو گر دو پیش کی زندگی سے غیر مطمئن اور اپنے ماحول سے برسر پیکار دکھائی دیتا ہے۔ فیض کے بعد فراز کا نام اس حیثیت سے نمایاں ترین کہا جا سکتا ہے کہ ان کی بصیرتوں کا پس منظر ان کی ادبی روایت ، ان تک سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی کلاسیکی قدروں کے ساتھ ساتھ ان کے زمانے کی اجتماعی زندگی اور ان کی تاریخ نے ساتھ ساتھ مرتب کیا ہے۔ فراز کی حسیت اسی لیے بیک وقت روایتی بھی ہے اور جدید بھی ۔ ایجاب اور انتخاب کا عنصر اس حسیت کی ترکیب میں ہمیں ایک ساتھ شامل نظر آتا ہے۔ پھر ہمارے عہد کی انسانی صورتحال کے کچھ اپنے تقاضے ہیں۔ ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آج کا ادب اور آج کا ادیب مزاحمت اور احتجاج کے رویے سے دستبردار نہ ہو۔ فراز کی شاعری میں کلاسیکی آداب کی پاسداری کے علاوہ انکار، احتجاج اور مزاحمت کا میلان بھی اپنے تمام معاصرین کے مقابلے میں زیادہ روشن اور تابناک دکھائی دیتا ہے۔ مزاحمت کی روایت جسے معاصر ادب (بالخصوص پاکستان میں تخلیق کیے جانے والے ادب ) کی مرکزی روایت کا نام دیا جا سکتا ہے، اپنی سب سے مانوس اور معروف شکلوں میں فیض کے بعد حبیب جالب اور فراز کے یہاں رونما ہوئی۔ مگر اس فرق کے ساتھ کہ جالب نے عوامی مقبولیت کے پھیر میں اپنے مزاحمتی رویے اور احتجاجی لہجے کی تہذیب پر کوئی توجہ نہ دی اور فراز کے یہاں زندگی اور شاعری کے مطالبات کی یکساں ادائیگی کا شعور ہمیشہ تحکم رہا۔ فراز کے یہاں کلاسیکی دروبست اور شعر کے فنی محاسن کی فہم نے ان کے حرف احتجاج کو کبھی عریاں نہیں ہونے دیا۔ وہ سخت سے سخت بات بھی سنبھل کر کہنے کا گر جانتے ہیں۔ اپنے عہد کی ہر ایسی واردات پر جو اجتماعی زندگی کے آشوب سے متعلق ہے، اپنا بیان دیتے ہیں۔ لیکن ان کی شاعری صرف بیان کی شاعری بھی نہیں ہے۔ بیان کی شاعری ، ان کے یہاں ایک مرتب اور مضبوط و محکم شاعرانہ بیان کے طور پر نمودار ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے ہجوم کی آواز اور اجتماعی طرز احساس کو طرح طرح کے رنگوں میں سامنے لانے کے بعد بھی فراز کا لہجہ ایک انفرادی پہچان رکھتا ہے۔ وہ مانوس استعاروں علائم ، نشانات کو بھی اپنے صرف میں اس طرح لاتے ہیں کہ ان میں ایک غیر رسمی جہت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔ صلابت اور نرمی کا ، احتجاج اور افسردگی کا شعور کی سنگینی اور گھلاوٹ کا ایسا امتزاج ہمیں اس عہد کے دوسرے شعرا کے یہاں بہت کم ملتا ہے۔ فراز کی نظموں اور غزلوں میں نالہ اس خاموشی کے ساتھ نعمہ بنتا ہے اور شخصی شعری تجربہ ایسے خود کار انداز میں عوامی اور اجتماعی واردات کی شکل اختیار کر لیتا ہے کہ ان کا
شعر سنے یا پڑھنے والے کے ادراک پر ان کی کوئی بات کبھی بوجھ نہیں بنتی۔

مجھے ترے درد کے علاوہ
اور دکھ تھے یہ مانتا ہوں
ہزار غم تھے جو زندگی کی
تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں
مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں
درد کی ریت چھانتا ہوں

مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر
یہ ریت رنگ حنا بنی ہے

یہ زخم گلزار بن گئے ہیں
یہ آہ سوزاں گھٹا بنی ہے
یہ درد موج صبا ہوا ہے
یہ آگ دل کی صدا بنی ہے

اور اب ساری متاع ہستی یہ
یہ پھول یہ زخم سب ترے ہیں

یہ دکھ کے نوحے یہ سکھ کے نغمے
جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں

جو تیری قربت تری جدائی میں
کٹ گئے روز و شب ترے ہیں

(یہ میری نظمیں ، یہ میری غزلیں )

 

یہ کون معصوم ہیں
کہ جن کو
سیاه آندھی
دیے سمجھ کر بجھا رہی ہے
انھیں کوئی جانتا نہیں ہے
انھیں کوئی جاننا نہ چاہے یہ کس قبیلے کے سر بکف جاں نثار ہیں
جن کو کوئی پہچانا نہ چاہے
کہ ان کی پہچان امتحاں ہے نہ کوئی بچہ، نہ کوئی بابا ، نہ کوئی ماں ہے
محل سراؤں میں خوش مقدر
شیوخ چپ
بادشاہ چپ ہیں
حرم کے سب پاسبان
عالم پناہ چپ ہیں
تمام اہل ریا کہ جن کے لبوں پہ ہے
لا الہ چپ ہیں

(بيروت)

کون اس قتل گہ ناز کو سمجھے اسرار
جس نے ہر دشنہ کو پھولوں میں چھپارکھا ہے
امن کی فاختہ اڑتی ہے نشاں پر لیکن
نسل انساں کو صلیبوں پہ چڑھا رکھا ہے
اس طرف نطق کی بارانِ کرم اور ادھ
ر کاسئہ سر سے مناروں کو سجا رکھا ہے

(سلامتی کونسل )

مجھے یقیں ہے
کہ جب بھی تاریخ کی عدالت میں
وقت لائے گا
آج کے بے ضمیر و دیدہ دلیر قاتل کو
جس کے دامان و آستیں
خون بے گناہاں سے تر بتر ہے
تو نسل آدم
وفور نفرت سے روئے قاتل پر تھوک دے گی
مگر مجھے اس کا بھی یقیں ہے کہ کل کی تاریخ
نسل آدم سے یہ بھی پوچھے گی
اے مہذب جہاں کی مخلوق
کل ترے رو برو یہی بے ضمیر قاتل
ترے قبیلے کے بے گناہوں کو
جب تہہ تیغ کر رہا تھا
تو تو تماشائیوں کی صورت
خموش و بے حس
درندگی کے مظاہرے میں شریک

کیوں دیکھتی رہی ہے
تری یہ سب نفرتیں کہاں تھیں
بتا کہ اس ظلم کیش قاتل کی تیغ براں میں
اور تری مصلحت کے تیروں میں
فرق کیا ہے؟
تو سوچتا ہوں
کہ ہم بھی کیا جواب دیں گے

(ویت نام )

ظاہر ہے کہ یہاں شاعری اور زندگی کی حدیں اس طرح گڈمڈ ہوگئی ہیں کہ ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن نہیں۔ لیکن کبھی کبھی شاعر کو اپنے احساسات کی قیمت اس طرح بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ ایک ایسا تخلیقی فریضہ ہے جس کی ادائیگی سے ڈرنا اور بچنا، اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ شعری اظہار اور اسلوب کے سیاق میں یہ ایک بحث طلب مسئلہ ہے۔ اس وقت میں تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا۔ بس اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فراز کے یہاں اس قسم کے مشکل مقامات سے گزرنے کا ایک اور قرینہ ان تراجم کے طور پر سامنے آیا جن میں جنوبی افریقہ کے شاعروں نے انسانی بے بسی ، واماندگی اور غم و غصے کی ایک نئی بوطیقا ترتیب دی ہے ۔ ” سب آوازیں میری ہیں ” میں حرف سادہ کے عنوان سے فراز نے اس اقدام کا جواز یوں پیش کیا ہے کہ:

.. یہ تراجم محض تخلیقی ہتھیاروں کو صیقل رکھنے کی غرض سے ہی نہیں کیے گئے بلکہ کچھ اور محرکات بھی تھے۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ میں خود انہی حالات سے گزررہا ہوں جن سے بیشتر افریقی جلا وطن شاعر دو چار ہیں۔ دوسرا سبب یہ کہ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے تاریخی اور سیاسی کوائف مختلف ہوتے ہوئے بھی کئی طرح کی مماثلت رکھتے ہیں ۔ ساتھ ہی یہ احساس دلانا بھی مقصود ہے کہ جب خلق خدا ظلم اور استحصال کے خلاف نبرد آزما ہو اور لوگ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جانیں تک قربان کر رہے ہوں تو لکھنے والوں پر کیا ذمے داری عائد ہوتی ہے اور اس تناظر میں ان کا کیا کردار ہونا چاہیے۔

میں اپنے مختصر پیش لفظ کو افریقی ادیب کے اس جملے پر ختم کرتا ہوں ۔ “صرف قیدی پرندہ ہی جانتا ہے کہ وہ کیوں نغمہ سرا ہے۔”

( احمد فراز لندن : سب آوازیں میری ہیں)

 

انا کے شعور کی تمام شکلوں میں سب سے مضحکہ خیز شکل تخلیقی انا یا اپنی creative ego ہے۔ بقول شخصے، گہرے انسانی سروکار ” انا کے اس غبارے کو پھوڑنے کا سب سے مؤثر وسیلہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ بات بھی دھیان میں رہنی چاہیے کہ کلاسیکی ادب کے مشاہیر کا اپنی قائم کردہ تخلیقی شرطوں پر جمے رہنا تو سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن اس کم عیار عہد میں، جہاں بیشتر لکھنے والوں کی بصیرت پرت دو پرت بہت سے زیادہ گہری نہیں ہوتی اور جن کے عام شعور کی قامت بس ماچس کی تیلیوں کے برابر کہی جاسکتی ہے، مستعار نظریوں کی مدد سے تخلیقی تجربے کی حرمت پر ان کا اصرار نا قابل فہم ہے۔ ہمارے زمانے کے شعر و ادب کوسب سے زیادہ نقصان اسی قسم کی غلط گمانیوں نے پہنچایا ہے۔ نظریاتی تعہد پر حد سے بڑھا ہوا اعتماد بھی در اصل اسی ”انا“ کے ابتذال آمیز شعور کی دین ہے۔ “کلچر کمیونی کیشن اینڈ سوشل چیلنج ” کے مصنف پی شی جوشی نے اس المیے پر بہت تاسف کا اظہار کیا تھا کہ ہمارے یہاں نئے شعور اور طرز احساس کی آمد کے مبالغہ آمیز اعلان کے باوجود تجدد کا کوئی قومی تصور ظہور پذیر نہ ہو سکا۔ اسی لیے ہمارے اکثر انقلابی ادیب تھیوریٹیکل یا نظریاتی کلیشوں کی مدد سے ادب کے سماجی رول کی بابت اونچی اونچی با تیں اور دعوے تو کرتے ہیں مگر ان کی اپنی تخلیقات میں حرارت اور طاقت بالعموم نا پید ہوتی ہے۔ احمد فراز نے سب آوازیں میری ہیں میں جن نظموں کے ترجمے کیے ہیں اور اس عمل کے واسطے سے خود اپنی حسیت کے جس رخ کی نمائندگی کی ہے۔ اس کا کچھے انداز ہ مندرجہ ذیل اقتباسات سے کیا جا سکتا ہے۔

میں ایک خاموش طبع اور مرنجاں مرنج انسان ہوں
اپنی غیر مرئی رفتار سے گامزن
اپنے منصوبوں میں مگن
غلامی کی حد تک خوش خلق لیکن پھر بھی
کبھی کبھی ماتمی نوحے
میرے دل کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں

میری خاموش آنکھوں کے پیچھے
میرے سر میں
سائرن اور انسانی چیخوں کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں ۔
جلاوطنی)

(Dennis Brutes: I AM THE EXILE)

شاعر !
لوگوں کو یقین دلاؤ
کہ خواب بھی حقیقت بن سکتے ہیں آزادی کی بات کرو
اور دھن وان کو
اس کے معطر خلوت خانے کی دیواروں پر
فن پارے سجانے دو
آزادی کی بات کرو
اور لوگوں کی آنکھوں کو چھو کر
انھیں احساس دلاؤ
کہ ان میں بے شمار ہونے کی قوت موجود ہے
وہ قوت
جو قید خانوں کی سلاخوں کو
گھاس کی بالیوں کی طرح مروڑ دیتی ہے
جو سنگ خارا کی دیواروں کو کانچ کی طرح ریزہ ریزہ کر دیتی ہے
شاعر
ان لوگوں کو ڈھونڈو
جو قفلوں کے دہانے کھولے دیتے ہیں
اس سے پہلے
کہ آنے والے دس برسوں کو
گزرے ہوے دس برس کھا جائیں

(آو نظمیں لکھیں )

(A.N.C. Kumalo: Red our Colour)

نہیں!
ہمیں اس راستے سے نہیں لوٹنا
کہیں ایسا نہ ہو
کہ پھر
ہم اپنے ہی سائیوں کے روبرو ہو جائیں
کہیں ایسا نہ ہو
کہ ہمارے کانوں کے پردے
اپنی ہی اداسی کی گونج سے پھٹ جائیں
نہیں
ہمیں ہتھیار نہیں ڈالنے
چاہے یہ سلسلہ
کیسا ہی لامتناہی کیوں نہ ہو

۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے اطراف میں
مہکتے ہوئے پھولوں کی
مزید افزائش ہونی چاہیے
درختوں میں لگے پھل
تازہ پتوں میں جذب ہو جائیں وگرنہ بعد میں۔
بڑے ہوے رگ و ریشے کے سوا
کیا رہ جائے گا

( نا تمام مسافت)

(Mazisi Kunve: Unfinished Adventure)

۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے عہد کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ صحافت، سیاست اور صارفیت نے انسانی وسیلہ اظہار کی آسان ترین شکل یعنی زبان کے ساتھ ایسی زیادتی کی ہے اور اتنے تشدد کو راہ دی ہے کہ زبان کا سارا وقار اور اس کی تاثیر مٹی میں مل گئی ہے۔ ان حالات میں، زبان کے تئیں ، لکھنے والے کی ذمے داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ لیکن وہ کر بھی کیا سکتا ہے، سوائے اس کے کہ اپنے گردزندگی سے لاتعلقی کا کوئی مصنوعی دائرہ بننے نہ دے اور حتی الامکان انسانی عصر کی بحالی کا جتن کرتا رہے۔ فیض صاحب کی نظم انتساب اسی سمت میں اٹھائے جانے والے ایک یادگار قدم کی نشاندہی کرتی ہے۔ فراز نے ”سب آوازیں میری ہیں“ کے محکوم تر ترجموں اور اپنی منتخب نظموں اور غزلوں کے اشعار کی مدد سے ہی فریضہ ادا کرنا چاہا ہے اور حقیقی زبان کے معاملے میں ایک ذمے دار لکھنے والے کا رول نبھایا ہے۔ اپنی اس جدو جہد میں وہ کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں اور کہاں نا کام ٹھہرے ہیں، اس کا فیصلہ زمانہ کرے گا لیکن یہ واقعہ اپنی جگہ مسلم ہے کہ فراز کی تخلیقی جستجو کا سلسلہ جاری ہے اور ان کے احساسات میں کسی طرح کے تساہل اور تھکن کے آثار نظر نہیں آتے۔ فیض صاحب کا خیال تھا کہ اپنے کلاسیکی رکھ رکھاؤ اور لہجے کی غنائیت کے ساتھ ساتھ ، فراز نے اپنے جذباتی تموج اور احساسات کی شدت کے ذریعے، اپنی ایک علیحدہ شناخت بنالی ہے، اور اس لحاظ سے اپنے معاصرین میں وہ سب سے زیادہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ سو ان کا یہ دعویٰ غلط نہیں کہ:

قلم سرخرو ہے
کہ جو اس نے لکھا
وہی آج میں ہوں
وہی آج تو ہے ۔
قلم سرخرو ہے۔

( قلم سرخرو ہے)

(جنوری 2004ء)

تحریر از شمیم حنفی ( ہم نفسوں کے درمیان)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×