افسانے کا فن
دنیا کی ہر شے کی طرح ادب بھی حالات اور زمانے کے تقاضوں کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ زمانے کی کروٹوں کے ساتھ فکشن نے بھی کئی روپ بدلے۔ داستان اس کے بعد ناول اور اس کے بعد افسانہ فکشن کے سفر کے تین پڑاؤ ہیں۔ داستان ناول اور افسانہ ان تینوں میں ایک خصوصیت مشترک ہے اور وہ ہے قصہ قصے کی پیشکش کا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ قاری کی توجہ اس پر جمی رہے اور ہر لحظہ وہ یہ جاننے کے لیے بیتاب رہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ داستان کو قصے میں قصہ جوڑ کر طول دیا جاتا تھا کیونکہ یہی زمانے کا تقاضا تھا۔ عقل کو دنگ کر دینے والے واقعات سامع یا قاری کو گرفت میں لیے رہتے تھے۔ پھر ایسا زمانہ آیا جب طوالت اور حیران کن واقعات کو تیاگ کر حقیقی زندگی کی مرقع کشی فکشن نگار کا مدعا ٹھہرا۔ یوں ناول کا جنم ہوا۔ ناول کا کینوس بہت وسیع ہوتا ہے۔ تخلیق کار اور قاری دونوں سے اس کے مطالبے سخت ہیں۔ لہذا فکشن کے کسی ایسے روپ کی تلاش ہوئی جسے لکھنے اور جس کے پڑھنے میں کم جگر کاوی کرنی پڑے۔ اس تلاش کے نتیجے میں مختصر افسانہ وجود میں آیا۔ افسانہ مختصر ہوتا ہے۔ اس میں پوری زندگی کو پیش کرنے کی گنجایش نہیں ہوتی۔ اس میں زندگی کے کسی
ایک رخ اور کردار کے کسی ایک پہلو سے سروکار رہتا ہے۔
اجزائے ترکیبی ، تو افسانے کے بھی دی ہیں جو ناول کے ہوتے ہیں مگر افسانے کا پیمانہ چھوٹا ہوتا ہے اس لیے ان کے برتنے کا انداز بدل جاتا ہے۔ ان اجزاے ترکیبی کا ذکر کرنے سے پہلے یہ عرض کرتا ضروری ہے کہ اس معاملے میں اہل نظر کی رائیں بدلتی رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پلاٹ کردار نقطہ نظر اور وحدت تاثر کے بغیر انسانے کا تصور ہی ممکن نہ تھا لیکن زیادہ پرانی بات نہیں کہ بغیر پلاٹ کی کہانیاں لکھی گئیں اور وہ “ناکہانی” کہلائیں۔ کہا گیا کہ آج کے زمانے میں فرد کا وجود ہی کہاں ہے جو افسانے میں کردار پیش کیے جائیں۔ نقطہ نظر کو ادب کے لیے مہلک قرار دیا گیا۔ وحدت تاثر کو غیر ضروری کہہ کے رد کیا گیا۔ علامتی اور تجریدی کہانیاں لکھی گئیں۔ اب پھر کہانی ماضی کی طرف لوٹی ہے مگر خاصی بدل کر ۔ آئیے اب افسانے کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں مختصری معلومات حاصل کریں
پلاٹ سے مراد ہے واقعات یا افسانے میں کوئی ایک واقعہ پیش کیا گیا ہے تو اس کے مختلف اجزا کی ترتیب افسانے میں کوئی قصہ پیش کرنا تو عام طور پر ممکن نہیں. ہوتا لیکن کسی واقعے یا چند واقعات کے بغیر افسانے کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔ اچھے افسانے کی ایک شناخت یہ ہے کہ اس میں ایک لفظ بھی غیر ضروری نہ ہو۔ غیر ضروری تفصیل سے افسانے میں جھول پیدا ہو جاتا ہے اور قاری کی توجہ مرکزی خیال پر مرکوز نہیں رہ پاتی۔ انتشار اور پراکند و بیانی سے احتراز افسانے کی اثر پذیری کے لیے ضروری ہے۔
کردار افسانے کے لیے بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح ناول کے لیے لیکن افسانے کا پیمانہ مختصر ہونے کے سبب افسانہ نگار کی دشواریاں زیادہ ہیں۔ ناول نگار کو مختلف زاویوں سے کردار پر روشنی ڈالنے اور اسے اُجاگر کرنے کا موقع ملتا ہے جب کہ افسانہ نگار کردار کا کوئی ایک پہلوہی کامیابی کے ساتھ پیش کر سکتا ہے۔ افسانہ نگار کو بڑی محنت کر کے کردار کو اس طرح تراشنا پڑتا ہے کہ وہ قاری کے دل میں گھر کرسکے۔ ناول میں کردار کا ارتقا آسانی سے دکھایا جا سکتا ہے جب کہ افسانے میں اس کی گنجایش کم ہوتی ہے۔ اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بڑی مہارت درکار ہے۔ « پریم چند کے افسانے ” زیور کا ڈبہ ، نمک کا داروغہ ” منٹو کا نیا قانون“ اور ” بابو گوپی ناتھ “ اس کی اچھی مثالیں ہیں۔ بعض نئے افسانہ نگار کردار نگاری کو اہمیت نہیں دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج ایسا انسان کہاں ہے جو ہیرو کی جگہ لے سکے۔ غلام عباس کی کہانی” آنندی” میں کوئی ہیرو یا مرکزی کردار نہیں ہے۔ افسانوں میں انسان کے علاوہ چرند پرند کو بھی کرداروں کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
نقطہ نظر سے کسی انسان کو مفر نہیں خاص طور پر مصنف کو کیونکہ وہ زیادہ حسّاس اور باشعور ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ایک اچھا فن کار اپنا نقطہ نظر قاری پر تھوپا نہیں۔ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ کھل کر کچھ نہ کے بلکہ اپنی تخلیق کو اس طرح پیش کرے کہ فن کار کے دل کی بات آپ سے آپ قاری کے دل میں آجائے۔ مثلاً منٹو نے ہندو مسلم فسادات سے متعلق افسانے (سیاہ حاشیے) اس طرح پیش کیے کہ قاری کو فرقہ پرستی سے نفرت ہو جاتی ہے۔ پریم چند کا افسانہ “نمک کا داروغہ پڑھ کر ہمارے دل میں دیانت داری اور اصول پرستی کی قدر بڑھ جاتی ہے۔
ماحول اور فضا کی مختصر افسانے میں بہت اہمیت ہے۔ فضا آفرینی کامیاب افسانہ نگاری کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس سے کہانی کی تاثیر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کرشن چندر نے اس تکنیک سے اپنے افسانوں میں بہت کام لیا ہے۔ فضا آفرینی سے یہ مراد ہے کہ افسانہ نگار ماحول کی ایسی تصویر کھینچے کہ قاری کے دل پر وہ کیفیت طاری ہو جائے جو وہ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ افسانے کا موضوع غریبی ہے تو غربت اور غریبوں کے رہن سہن کی ایسی تصویر کھینچی جائے کہ قاری کو غریبوں سے ہمدردی ہو جائے۔ جن افسانہ نگاروں نے ماحول کی تصویر کشی اور فضا آفرینی پر زیادہ توجہ کی وہ زیادہ کامیاب افسانے پیش کر سکے۔
اسلوب افسانے کا ایسا حصہ ہے جس سے سسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ مختصر افسانے کا فن غزل کے فن سے بہت ملتا جلتا ہے۔ بے مصرف ایک لفظ کی بھی یہاں گنجایش نہیں۔ یہ کفایت لفظی کا فن ہے یعنی کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ بات کہہ جانے کا ہنر ہے۔ کیا لکھنا چاہیے سے زیادہ افسانہ نگار کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا نہیں لکھنا چاہیے۔ مطلب یہ کہ ہر غیر ضروری لفظ اور ہر غیر ضروری فقرے کو قلم زد کردیا جانا چاہیے۔ جو لفظ یا جو فقرہ افسانے کے آگے بڑھنے میں مددگار نہ ہو وہ غیر ضروری ہے۔
افسانے کا اسلوب موضوع کے مطابق ہونا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ افسانے کی زبان کو سادہ و رواں ہونا چاہیے مگر سادگی کے ساتھ دلکشی بھی ضروری ہے لیکن بعض افسانہ نگار ایسی زبان لکھتے ہیں کہ قارئین یا سامعین ایک ایک فقرے پر اس طرح داد دیں جیسے مشاعرے میں شعر پر دی جاتی ہے۔ یہ رویہ بہر حال غلط ہے۔
آغاز و اختتام : پر بھی افسانے کی کامیابی اور ناکامی کا مدار ہے۔ افسانے کا آغاز اس طرح ہونا چاہیے کہ قاری فورا اس طرف متوجہ ہو جائے۔ اب یہ افسانہ نگار کا ہنر ہے کہ اس توجہ کو افسانے سے ہٹنے نہ دے۔ ہر لحظہ یہ تجس باقی رہے کہ اب کیا ہونے والا ہے اور جب کہانی ختم ہو تو اس طرح کہ پڑھنے والا مدتوں اس کی گرفت سے نہ سکے۔ بعض روی افسانہ نگاروں نے ایسی کہانیاں لکھی ہیں کہ جب وہ کاغذ پر ختم ہو گئیں تو قاری کے ذہن میں شروع ہو گئیں یعنی ان کے ذہن میں ایک ایسا سوالیہ نشان اُبھر آیا کہ مدتوں اس کا جواب ڈھونڈتے رہے۔
وحدت تاثر کو کہانی کی اساس کہا جاتا ہے۔ کچھ دنوں پہلے اس کی شدید مخالفت ؟ کی گئی اور کہا گیا کہ اصل زندگی میں انتشار اور بکھراؤ کی کیفیت ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ افسانے میں یہ کیفیت پائی جائے۔
وحدت تاثر سے یہ مراد ہے کہ افسانے سے قاری کے ذہن پر کوئی ایک کیفیت طاری ہو۔ یہ نہ ہو کہ ابھی خوشی کی کیفیت ہے ذرا دیر میں ساری فضا سوگوار ہو گئی۔ کسی زمانے میں وحدت تاثر کو افسانے کے لیے سب سے زیادہ ضروری قرار دیا گیا۔ آج بعض لوگ اس کے حامی ہیں تو بعض اس کے مخالف۔
افسانے کا ارتقا:
مختصر افسانہ مغرب کی پیداوار ہے۔ وہاں پنپنے کے بعد ہی یہ ہمارے ملک میں در آمد کیا گیا۔ انیسویں صدی کے آغاز میں امریکہ کے ایک مصنف واشنگٹن ارون نے اسکیچ بک“ لکھ کر اس صنف کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بعد نیتھنل ہاتھارن کے ہاتھوں اس نے فروغ پایا۔ ہاتھارن نے بیان کی ندرت اور حسن کاری کو افسانے کی بنیادی شرط قرار دیا ۔ ایڈ گرایلن پو افسانے کی تاریخ میں تیسرا اہم نام ہے۔ انھوں نے وحدت تاثر اور ہم آہنگی کو افسانے کے لیے لازمی ٹھرایا۔ جلد ہی یہ ادبی صنف ہر طرف مقبول ہو گئی۔ امریکہ، روس، انگلستان اور فرانس میں بڑے بڑے افسانہ نگار پیدا ہوئے۔ ان میں ڈکنس اسٹونین اناطول فرانس مارسل پروست گور کی چیخوف، موپاساں نے عالم گیر شہرت پائی۔
بیسویں صدی سے پہلے ہمارے ادب میں مختصر افسانے کا وجود نہیں تھا۔ انیسویں صدی کے شروع میں ” قصص مشرق کے نام سے ڈاکٹر جان گل کرسٹ نے ایک کتاب تیار کی تھی جس میں اس زمانے کے چھوٹے چھوٹے قصوں کو جو عوام میں مقبول تھے جمع کردیا تھا۔ مولوی نذیر احمد نے بھی بعض چھوٹی چھوٹی کہانیوں کو از سرنو لکھ کر منتخب الحکایات“ کے نام سے پیش کیا تھا۔ مگر ان دونوں کتابوں میں جو چھوٹے چھوٹے قصے شامل ہیں وہ مختصر افسانے کے ذیل میں نہیں آتے۔ راشد الخیری اور سجاد حیدر یلدرم کو بعض اصحاب نے اردو کے اولین افسانہ نگار کہا ہے لیکن فنی نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو پریم چند اردو کے پہلے افسانہ نگار قرار پاتے ہیں۔ انھوں نے اردو افسانے کو مستحکم بنیاد عطا کی۔ دیہات کی زندگی اور دیہات کے مسائل کو افسانے میں جگہ دی۔ حقیقت نگاری کی روایت قائم کی اور سیدھی سادی زبان کو وسیلۂ اظہار بنایا۔ تقریباً اسی زمانے میں نیاز فتح پوری سلطان حیدر جوش اور مجنوں گورکھپوری نے بھی افسانے لکھے مگر ان کے افسانوں پر رومانیت کا غلبہ ہے۔ کچھ دنوں تو یہ رومانی افسانے مقبول رہے لیکن جلد ہی یہ اپنی تاثیر کھو بیٹھے۔ ادھر عالمی سطح پر بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہو ئیں۔ روس کے ادیب و شاعر اب اپنے قلم سے محنت کشوں اور مظلوموں کی حمایت کرنا چاہتے تھے۔ 1929ء میں ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ اس تحریک کو پنڈت نہرو جیسے عظیم مدبر وسیاسی رہنما، مولوی عبدالحق جیسے بزرگ ادیب اور پریم چند جیسے فن کار کی حمایت حاصل تھی۔ ای زمانے میں افسانوں کا ایک مجموعہ ” انگارے “ شائع ہوا۔ اس میں رشید جہاں احمد علی سجاد ظہیر اور محمود الظفر کے افسانے شامل تھے۔ انگارے کے افسانہ نگاروں نے ایسے موضوعات پر قلم اُٹھایا تھا جو ابھی تک ادب کے دائرے سے باہر تھے۔ یہ فن کار حقیقت نگار تھے اور سماج میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔ حکومت کو ادب میں یہ تبدیلی برداشت نہ ہوئی اور کتاب ضبط کرلی گئی۔ مگر اس کے اثر سے ادب میں جدید رجحانات عام ہو گئے۔ روسی اور فرانسیسی افسانہ نگاروں بالخصوص چیخوف، ترگنیف، موپاساں اور فلابیر کی تخلیقات میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ اردو
افسانے میں موضوعات کا دائرہ وسیع ہوا اور مختلف اسالیب وجود میں آئے۔ ارود میں افسانہ پڑھنے اور افسانہ لکھنے کا شوق عام ہوا۔ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی ، ممتاز مفتی حسن عسکری اور غلام عباس نے بعض معرکہ آرا افسانے لکھے۔ پھر افسانہ نگاروں کی دوسری نسل نے میدان میں قدم رکھا۔ ان میں قرۃ العین حیدر انتظار حسین حاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور نے بہت شہرت پائی۔
کرشن چندر نے اپنے افسانوں سے ترقی پسندی اور اشتراکیت کو فروغ دیا۔ انھوں نے اردو افسانے کو ایک دلکش اسلوب سے آشنا کیا۔ بیدی نے چھوٹے چھوٹے موضوعات پر نفسیاتی افسانے لکھے منٹو اور عصمت نے بے رحم حقیقت نگاری سے کام لیا اور جنسی موضوعات پر قیامت بپا کرنے والے افسانے لکھے۔ ممتاز مفتی فرائڈ سے متاثر رہے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی اور غلام عباس نے پنجاب کی علاقائی زندگی اور سماجی موضوعات کو اپنے افسانوں میں جگہ دی۔
۱۹۴۷ء میں ہندوستان اس طرح آزاد ہوا کہ ایک ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ نئی سرحد کے دونوں طرف خونیں فسادات ہوئے لاکھوں بے گناہ برباد ہو گئے۔ اس حادثے نے افسانہ نگاروں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا۔ اس حادثے پر کرشن چندر نے ”ہم وحشی ہیں “ حیات اللہ انصاری نے شکتہ کنگورے منٹونے ٹوبہ ٹیک سنگھ ” عصمت نے ”جڑیں“ انتظار حسین نے اجودھیا“ قرۃ العین نے جلاوطن ” جیسے افسانے لکھے۔ ان حالات نے افسانہ نگار کو باہر کی دنیا سے بددل کر دیا۔ وہ اپنی ذات کے اندر سمٹ کے رہ گیا۔ کھلے بندوں اظہار بھی اب اس کے لیے مشکل ہو گیا۔ اس لیے علامتی اور تجریدی افسانہ وجود میں آیا ۔ جو افسانہ نگار تجریدی اور علامتی افسانے نہیں لکھ رہے تھے ان کا انداز بھی بدل گیا۔ تقسیم وطن کے بعد جن افسانہ نگاروں نے شہرت پائی ان میں قاضی عبد الستار ، غیاث احمد گدی، جو گند ریال اقبال متین بلراج مینرا انور عظیم اقبال مجید سریندر پرکاش ، انور سجاد، خالدہ حسین احمد ہمیش، رتن سنگھ ، کمار پاشی، قمرا حسن، احمد یوسف حسین الحق، شوکت حیات شفق، مرزا حامد بیگ سید محمد اشرف اور طارق چھتاری وغیرہ نے شہرت پائی۔ ان میں وہ فن کار بھی شامل ہیں جنھوں نے اردو افسانے کو پھر دھرتی پر اتارا اور اسے بے راہ روی سے نجات دلائی۔
تحریر از سنبل نگار