اقبال کی عصری معنویت
علامہ محمد اقبال جس عہد میں شاعری کر رہے تھے صرف اسی تک محدود نہیں رہے۔ وہ اپنے عہد سے ماورا اور دور اندیش تھے۔ اور مستقبل میں دیکھنے والی نظر رکھتے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں شاعری کرتے ہوئے ایسا لگتا ہے اُنھوں نے اکیسویں صدی کے موجودہ حالات کو بھانپ لیا تھا۔ اقبال کی شاعری ہمارے عہد کی عکاس ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اقبال اکیسویں صدی کے شاعر ہیں۔ اور ہمارے عہدِ حاضر کے حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر لکھ رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کے کئی رہنما اس راستے پر چل رہے ہیں جو کئی برس قبل اقبال نے دکھایا تھا۔ اور وہی باتیں کر رہے ہیں جو ایک عرصہ پہلے اقبال کہہ کر گئے تھے۔ جن حقیقتوں کو علامہ نے اس وقت بے نقاب کیا تھا وہ آج واضح طور پر ہمارے سامنے آ رہی ہیں۔ بیسویں صدی میں اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کی زندگی پر جو اثرات چھوڑے، عصرِ حاضر میں ان کی اہمیت واضح ہے۔
اس موضوع پر علامہ اقبال کی دو نظمیں نمایاں ہیں: “ابلیس کی مجلسِ شوریٰ” اور “خضرِ راہ”۔ ابلیس کی مجلسِ شوریٰ میں ابلیس اور اس کے کارندوں کی ایک بیٹھک کا منظر دکھایا گیا ہے۔ جس میں وہ مختلف مشورے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نظم کے آغاز میں ابلیس مشیروں کو اپنے کارنامے اس طرح بتا رہا ہوتا ہے:۔
یہ عناصر کا پرانا کھیل یہ دنیائے دوں
ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا خوں
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
(ابلیس کی مجلسِ شوریٰ)
علامہ اقبال نے ابلیس اور اس کے مشیروں کے منہ سے جو باتیں کہلوائیں ہیں وہ آج بھی ہمارے سامنے اسی طرح سے موجود ہیں۔ عہدِ حاضر میں بھی سارا وہی نظام ہے۔ جس کا تذکرہ اقبال نے بہت پہلے کیا تھا۔ مجلسِ شوریٰ کو جدید دور میں “پارلیمنٹ” کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اقبال نے “ابلیس کی مجلسِ شوریٰ” میں جو مناظر دکھائے ہیں آج وہ بالکل اسی طرح پارلیمنٹ میں نظر آتے ہیں۔ جس میں ناداروں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کی تقدیر میں بس اتنا ہی لکھا ہے جو انھیں مل رہا ہے۔ حالانکہ دولت کی تقسیم خدائی نہیں بلکہ زمینی ہے۔ اس کے علاؤہ ان ایوانوں میں یہ معاملہ زیرِ بحث ہوتا ہے کہ سرمائے کو چند مخصوص ہاتھوں میں کس طرح اکٹھا کرنا ہے۔ تو ابلیس کی اُس مجلسِ شوریٰ اور ہماری موجودہ صورتِ حال میں کوئی فرق نہیں۔ اس سے اقبال کی عالمگیریت بالکل واضح ہے۔
“خضرِ راہ” میں اقبال نے تین بڑے موضوعات بیان کیے ہیں۔ پہلے اقبال نے زندگی کی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ پھر جمہوریت کے غلط استعمال اور اس کے پسِ پردہ حکمراں طبقے کے مقاصد بیان کیے ہیں۔ اور پھر سرمایہ و محنت کے درمیان جو فرق ہے اس کی وضاحت کی ہے۔ مثلاً جمہوری نظام جب سامنے آیا تو لوگوں کو اس نظام میں اپنی بھلائی نظر آئی۔ لیکن اس کے ظاہر اور باطن میں واضح فرق تھا۔اور اقبال اس فرق کو بھانپ گئے تھے۔ اقبال نے جمہوری نظام کی وضاحت کی کہ دراصل یہ بھی حکمراں طبقے کی ایک چال ہے اور اس کے پسِ پردہ دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ لوگوں کو اس نظام سے جو اُمیدیں وابستہ ہوئیں تھیں اقبال نے اس کی وضاحت یوں کی:۔
گرمی گفتار اعضائے مجالس الامان!
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زرگری
اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
(سلطنت)
موجودہ دور کے رائج جمہوری نظام میں یہ تمام باتیں موجود ہیں۔ اس طرح اقبال کی آفاقیت واضح ہو جاتی ہے۔ سرمایہ اور محنت کے درمیان جو فرق ہے اس کی وضاحت علامہ نے جس طرح اُس وقت کی تھی وہ ویسی ہی آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ نظم “خضرِ راہ” میں اقبال اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں:۔
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دستِ دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰۃ
(سرمایہ و محنت)
علامہ محمد اقبال نے یہاں مزدور کا دکھ بیان کیا ہے۔ یعنی مزدور کو سخت محنت کرنے کے باوجود بھی اجرت اس طرح ملتی ہے جیسے صاحبِ استطاعت لوگ غریبوں کو زکوٰۃ دیتے ہیں۔ سرمایہ و محنت کے درمیان یہ تضاد آج بھی موجود ہے۔ علامہ “خضرِ راہ” میں اس کی مزید وضاحت اس طرح کرتے ہیں:۔
کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے
سکر کی لذت میں تو لٹوا گیا نقدِ حیات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
(سرمایہ و محنت)
سرمایہ دار طبقہ ہمیشہ سے ہی عیار واقع ہوا ہے۔ اس نے مختلف طریقوں سے نچلے طبقے کا استحصال کیا ہے۔ علامہ محمد اقبال نے بہت پہلے اس کی طرف اشارہ کر دیا تھا اور یہ روش آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ عہدِ حاضر میں بھی نچلے طبقے کی کوئی وقعت نہیں۔ وہ سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہے۔ اس ساری بحث کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ علامہ اقبال آفاقی شاعر ہیں۔ انھوں نے اپنے عہد میں جو موضوعات بیان کیے تھے وہ آج بھی ہمارے سامنے ویسے ہی موجود ہیں۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہو گا کہ اقبال ہمارا ہم عصر شاعر ہے۔
فیصل شہزادایم فل اسکالر جی سی یونیورسٹی لاہور