اقبال

اقبال لاہور آنے کا شوق سب سے زیادہ اس لیے تھا کہ سر محمد اقبال سے ملیں گے ۔ چناں چہ ملے شاعر اعظم انتہائی سادگی کے ساتھ ایک مونڈھے پر بیٹھے حقے سے شغل فرما رہے تھے اور لکھنؤ کے ایک مجذوب نوجوان شاعر مجازی صاحب آپ کے پاس بیٹھے تھے ۔ تعارف کے بعد لکھنو اور لاہور کا ذکر چھڑا ہی تھا کہ مجازی نے کہا :
” میرا مطلب یہ ہے ڈاکٹر صاحب کہ اگر آپ کی زبان بھی درست ہوتی تو۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب نے بات کاٹ کر کہا ۔ ” تو سبحان اللہ”
مجازی صاحب نے کہا ۔ ” یہی نہیں بلکہ ایک بات ہوتی ”
ڈاکٹر صاحب نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا ۔ ” مجازی صاحب میرے حال پر ترس کھا کر لاہور تشریف لے آئے ہیں تاکہ میری زبان درست فرماتے رہیں میں اب آپ ہی سے مشورہ لوں گا ”
مجازی صاحب اس طرح متانت سے بیٹھے رہے گویا ڈاکٹر صاحب جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ درست ہے ۔
میں نے عرض کیا۔ ” ڈاکٹر صاحب یہ خدا ہی نہیں مانتے۔ آپ تو پھر بھی خدا کے بندے ہیں”
ڈاکٹر صاحب نے کہا ” اسی لیے تو میں خوش ہوں کہ یہ مجھے بھی نہیں مانتے یہ ایک طرف ہیں اور میں اور میرا خدا ایک طرف”
مجازی صاحب نے تمسخر سے فرمایا ” ہینھ۔ خدا ۔۔۔۔”
ڈاکٹر صاحب نے گھبرا کر کہا ” زیادہ حد ادب ”
اس کے بعد مجازی صاحب تو اپنے ناخنوں سے میل نکالتے رہے اور یہاں گفتگو نہ جانے کہاں کہاں ہوتی ہوئی رفیع احمد خان صاحب عریاں کہتے ہیں ۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے اصرار کر کے ان کے بہت سے شعر سنے اور کہنے لگے کہ خیریت ہے کہ یہ صاحب اس رنگ میں کہتے ہیں ورنہ بڑے بڑوں کا پتا نہ چلتا کہ کدھر گئے ۔ اس رنگ کے خود بھی اکثر شعر سنائے۔
ان کی زبان درست تھی یا نہیں وہ حقہ کہتے تھے یا حکہ مگر واقعہ یہ ہے ان سے ملنے کے بعد ان کی وہ عظمت جو کتابوں سے حاصل ہوئی تھی میرے دل میں دو گنی ہو گئی۔ لکھنو جا کر اپنی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ گہرستان میں نے بھیجا ۔ اس کو پڑھ کر جو خط مجھے لکھا ہے اس سے اس عظیم المرتبت شخصیت کی رفعتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ پھر کچھ دن خط و کتابت رہی مگر افسوس کہ ان کا وقت آچکا تھا اور میں نے ملنے میں بہت دیر کی تھی ۔ پھر دوبارہ نہ مل سکا۔

 

شوکت تھانوی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×