الطاف فاطمہ 10 جون 1928 کو لکھنو میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے آباؤ اجداد جنگ آزادی کے نامور مجاہد تھے ۔ آپ کے والد کا نام فضل امین تھا۔ جو کہ انتہائی تعلیم یافتہ تھے ۔ انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کیا ہوا تھا ۔ الطاف فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ حسرت موہانی کے جریدے میں فرضی نام سے لکھا کرتے تھے ۔ آپ کے والد ریاست جاورہ میں اسٹنٹ چیف سیکرٹری تھے ۔ الطاف فاطمہ کی والدہ کا نام سیدہ ممتاز جہاں بیگم تھا جو خان بہادر جعفر حسین کی بیٹی تھیں ۔ الطاف فاطمہ کے ماموں نامور افسانہ نگار رفیق حسین تھے ۔ آپ کی تعلیم مسلسل تسلسل قائم نہ رہا ۔ قیام پاکستان کے بعد آپ پاکستان آگئیں ۔ آپ نے ایف – اے اور بی – اے کا امتحان پرائیویٹ طور پر لاہور بورڈ سے پاس کیا۔ ایم اے اورینٹل کالج لاہور سے کیا ۔ میکلیگن کالج سے 1965 میں بی ایڈ کیا۔ 1964 میں بطور لیکچرار اسلامیہ کالج میں اپنی خدمات سر انجام دیں ۔ 1988 میں ریٹائر ہوئیں ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مختلف کالج میں خدمات سر انجام دیتی رہیں ۔ آپ کی تصانیف میں چار ناول ” نشان منزل ، دستک نہ دو ، چلتا مسافر اور خواب گر شامل ہیں ۔ 1963 میں ایک کتاب ” روزمرہ آداب ” شائع ہوئی۔ آپ کی وجہ شہرت آپ کے افسانوی مجموعے بنے۔ 1969 میں پہلا افسانوی مجموعہ ” وہ جسے چاہا گیا ” شائع ہوا۔ جس میں 14 افسانے شامل ہیں ۔ جس میں ” وہ جسے چاہا گیا ، کہیں یہ پروائی تو نہیں ، آنے والی ہے ، باز گشت ، شہپر ، پرانا حریف ، سلورکنگ ، واپسی ، اک شور ماومن ، گواہی ، چھوٹا مولوی ، اس کا آشوب ، ٹڈی چٹا سویٹر اور سہارا ” شامل ہے ۔ آپ کا دوسرا افسانوی مجموعہ” جب دیواریں گریہ کرتی ہیں ” 1988 میں شائع ہوا ۔ جس میں دس افسانے شامل ہیں ۔ جن میں جشنے دارو، ننگی مرغیاں ، چرواہا ، جب دیواریں گریہ کرتی ہیں ، بے قامت لوگ ، مشت غبار ، مچھلی ، آپریٹر نمبر تین ، نمانا جیسا آدمی اور شیر دہان شامل ہیں ۔ آپ کا تیسرا افسانوی مجموعہ” تار عنکبوت ” 1990 میں شائع ہوا ۔ جس میں تیرہ افسانے شامل ہیں ۔ جن میں ” مہرہ جو پٹ گیا ، خیال بیاباں نورد ، کنڈکٹر ، تار عنکبوت ، ایسی لمی اڈاری ، بیچلرز ہوم ، تصویر ، ایک شور ماومن ، رتن جوت ، زمین کا اقلیدسی زاویہ ، رنج سفر ، نیا گوتم ، کوک کی ایک بوتل اور خستہ خانم شامل ہیں ۔
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار