الٹے پاؤں والے لوگ
میں نے دیکھا سر شام کچھ مسخرے
ایک ٹیلے پہ بیٹھے ہوئے زور سے
ایک نقارہ پیٹے چلے جارہے ہیں ،مجھے
کچھ تعجب ہوا سوچا شاید کسی
من چلے یار جانی کی بارات ہے
کچھ تو ہے ورنہ کیوں رقص نغمات ہے
میں نے آواز دی دوستو بھائیو
کچھ بتاؤ مجھے بھی تو کیا بات ہے
کوئی بولا نہیں میری آواز،پر ،پے بہ پے
اپنی ڈفلی پہ گاتے رہے مستقل
پاس جاکر جو دیکھا تو وہ لوگ تھے
جن کے سر پشت پر پاؤں تھے سامنے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار