امراؤ جان ادا کا تنقیدی جائزہ / مرزا محمد ہادی رسوا کی ناول نگاری

امراؤ جان ادا کا تنقیدی جائزہ / مرزا محمد ہادی رسوا کی ناول نگاری

پریم چند سے پہلے اردو ناول کی تاریخ میں سب سے اہم نام مرزا محمد ہادی کا ہے جو امراؤ جان ادا کی اشاعت کے بعد رسوا تخلص سے مشہور ہوئے۔ بہت ذہین انسان تھے مگر مزاج لا ابالی پایا تھا، جم کر کوئی کام نہ کر سکے۔ طبیعت کا رجحان ریاضی اور نجوم کی طرف تھا۔ سب سے پہلے ریلوے میں اوورسیئر کی حیثیت سے ملازم ہوئے مگر اس کام میں جی نہ لگا۔ آخر کار سبکدوش ہو گئے پھر نخاس (لکھنو) کے ایک فارسی مدرسے میں بطور معلم لازم ہو گئے۔ تصنیف کا شوق تھا۔ اسی نے ان کا نام زندہ رکھا۔ مختلف موضوعات پر دو درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ ان میں زیادہ تر ناول ہیں۔ ان میں سے بیشتر لکھنؤ اور اس کے آس پاس کی زندگی کے گرد گردش کرتے ہیں۔ لکھنو اور لکھنو کی تہذیب و معاشرت ان کے رگ وپے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ یہیں ۱۸۵۸ء میں ان کی ولادت ہوئی اور یہیں زندگی گزری۔ لکھنو میں جو کچھ دیکھا اپنی تحریروں میں اس کی ہو بہو تصویر اتار دی۔ یہی ان کا
اصل کمال ہے۔

مراد جان ادا کے علاوہ ان کی خاص تصانیف ہیں : ذات شریف، شریف زاده اختری بیگم ، بہرام کی رہائی ، طلسمات ، خونی بھید، خونی عاشق اور افشائے راز لیکن مرزا محمد ہادی رسوا کا نام زندہ ہے تو اس لیے کہ وہ امراو جان ادا کے مصنف ہیں اور باقی کتابوں کے نام صرف اس لیے زندہ ہیں کہ وہ بھی امراؤ جان ادا کے مصنف کی تخلیق ہیں۔ آئیے اب امراو جان ادا کی بقائے دوام کا راز تلاش کریں۔

امراو جان ادا:

کوئی کتاب اگر اپنے وجود میں آنے کے پچاس سال بعد بھی دلچسپی سے پڑھی جائے تو اسے ادب عالیہ میں شمار کیا جانا چاہیے۔ امراو جان ادا تقریباً ایک صدی پہلے لکھی گئی تھی۔ اس کی سو سالہ زندگی میں کوئی زمانہ ایسا نہیں آیا جب اس کی مقبولیت کو گہن لگا ہو۔ فن کے پارکھوں نے ہر دور میں اسے خراج تحسین پیش کیا اور اعتراف کیا کہ یہ اردو کا پہلا ناول ہے جو فن کی کڑی سے کڑی کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ میں اس کے بقائے دوام کا راز ہے۔

ناول کا موضوع کیا ہے اور ناول نگار نے کس مقصد کے پیش نظر اسے تصنیف کیا ہے اس پر ایک زمانے سے بحث ہوتی آئی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مصنف ایک طوائف کے چہرے سے نقاب ہٹانا چاہتا ہے۔ اگر ناول نگار کا مدعا یہ ہوتا تو وہ طوائفوں کی زندگی کے گھناؤنے پن پر زور دیتا اور ان کی زندگی کے وہ پہلو اجاگر کرتا کہ پڑھنے والا ان سے نفرت کرنے لگتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ ناول نگار نے اپنے زمانے یعنی انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں لکھنو اور اس کے آس پاس کی زندگی میں جو کچھ دیکھا اسے من و عن امراو جان ادا میں پیش کر دیا۔ وہاں کی تہذیب و معاشرت کی تصویر کشی ہی ناول نگار کا مقصود ہے۔

مرزا محمد ہادی رسوا زیادہ غور و فکر کے عادی نہیں تھے مگر انھوں نے اس نکتے کو پا لیا کہ طوائف کا کوٹھا ہی ایک ایسا اسٹیج ہو سکتا ہے کہ لکھنو‎ کا ہر کردار کبھی نہ کبھی اس تک پہنچتا ہے اور اپنا پارٹ ادا کر کے رخصت ہو جاتا ہے۔ یہ تو ہم نے سُن ہی رکھا ہے کہ کسی زمانے میں بڑے بڑے امیروں، جاگیرداروں اور نوابوں کے بیٹوں کو مجلسی آداب اور گفتگو کا ہنر سیکھنے کے لیے طوائف کے کوٹھے پر بھیجا جاتا تھا۔ امراد جان ادا ناول کی سیر کیجیے تو ایسے بوڑھے بھی یہاں بیٹھے اور دل بہلاتے نظر آتے ہیں جن کے منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت۔ شرمیلے نواب سلطان سے بھی ہیں ملاقات ہوتی ہے۔ حد یہ ہے کہ ڈاکو فیض علی بھی رات کی تاریکی گری ہونے پر یہاں آپہنچتے ہیں۔ جن کا کوٹھے پر آنا ممکن نہیں یہ پورا کوٹھا ان تک جا پہنچتا ہے۔

میلوں ، تماشوں اور عرسوں کا ذکر کیے بغیر لکھنو کی معاشرت کا نقشا کیسے مکمل ہو سکتا تھا۔ اس کا حل مصنف نے اس طرح نکالا کہ طوائفوں کو سیر کے بہانے وہاں لے گیا۔ بیگمات کی زندگی اور محلات کے اندرونی منظر دکھانے مقصود ہیں تو مجرے کے لیے امراد جان کا وہاں لے جانا کیا دشوار ہے۔ لکھنو کی بربادی کے دوران پناہ لینے کے لیے طوائف مسجد میں جاپہنچے تو مولوی صاحب سے ملاقات کیسے نہ ہوگی۔ بے روزگار گنواروں اور لٹیروں کو پیش کرنے کی صورت یہ نکالی گئی کہ شہر کے باہر نواب سلطان کی کوٹھی میں امراو جان مقیم ہیں تو لٹیرے لوٹ مار کے لیے وہاں آپہنچتے ہیں۔ غرض خانم کے کوٹھے کو مرکز بنا کر ناول نگار ہمیں سارے لکھنو کی سیر کرا دیتا ہے اور اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے۔

پلاٹ دو طرح کا ہوتا ہے۔ اکہرا پلاٹ اور دو ہرا پلاٹ۔ اکہرے پلاٹ میں شروع سے آخر تک ایک قصہ ہوتا ہے۔ اس لیے مصنف اور قاری دونوں کے لیے اسے گرفت میں لیے رہنا آسان ہوتا ہے۔ قصے دو یا دو سے زیادہ ہوں تو مصنف کے لیے اس کا نیا ہنا دشوار ہوتا ہے۔ قاری کی توجہ بر قرار نہ رہے تو دو ہرے پلاٹ کے ناول کو سمجھنا اور اس سے لطف اندوز ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔

امراو جان ادا کا پلاٹ دوہرا ہے۔ امیران ایک کمسن لڑکی ہے۔ بنگلہ (فیض آباد) اس کا آبائی وطن ہے۔ دلاور نام کا ایک بدمعاش امیرن کے باپ سے عداوت رکھتا ہے۔ وہ امیران کو اغوا کر کے لکھنو لے جاتا ہے۔ دوران سفر جس کو ٹھری میں امیران ٹھہرائی جاتی ہے اسی میں ایک اور لڑکی رام دئی بھی لائی جاتی ہے۔ لکھنو میں امیرن کو ایک طوائف خانم خرید لیتی ہے اور اسے امیرن سے امراو جان بنادیتی ہے۔ رام دئی کو ایک نواب زادے سلطان کی ماں اپنے بیمار بیٹے کے لیے مول لے لیتی ہے۔ بقول امراو جان ایک کو کوٹھی میسر آتی ہے دوسری کو کوٹھا۔ دونوں کی زندگیاں ایک دوسرے سے مختلف ماحول میں گزرتی ہیں اور اس طرح دو قصے الگ الگ چلتے ہیں۔ ایک دن امراو جان مجرے کے لیے نواب سلطان کی کوٹھی میں جاتی ہے۔ یہاں اس کی ملاقات رام دئی سے ہو جاتی ہے۔ اس طرح دونوں قصے مل کر ایک ہو جاتے ہیں اور قصہ انجام کی طرف بڑھتا ہے۔ دوہرے پلاٹ کے باوجود قصہ پوری طرح گٹھا ہوا ہے اور کہیں جھول نظر نہیں آتا۔ واقعات ایسی فطری ترتیب سے پیش آتے ہیں کہ کہیں الجھاو پیدا نہیں ہوتا اور پورا ناول قاری کی گرفت میں رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پلاٹ کی تیاری میں ناول نگار نے بڑی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔

کردار نگاری کے نقطہ نظر سے بھی امراد جان ادا اردو کا پہلا کامیاب ناول ہے۔ ناول کی تکنیک میں کردار نگاری کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ناول نگار کا کمال اس میں ہے کہ ایسے کردار تخلیق کرے جو حقیقی اور اصلی دنیا سے لیے گئے ہوں۔ ان پر اصلیت کا دھوکا ہو۔ ناول ایک بار پڑھ لینے کے بعد وہ ہمارے دل و دماغ میں اس طرح بس جائیں کہ جب بھی ان کا خیال آئے یہ محسوس ہو کہ ہم برسوں ان کے ساتھ رہے ہیں۔ امراو جان ادا کے کردار اسی طرح کے ہیں۔ کبھی یہ احساس نہیں ہو تا کہ یہ کردار فرضی ہیں اور محض مصنف کی جنبش حکم سے وجود میں آئے ہیں۔ ناول کے کردار دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو ناول کے بیشتر حصے پر چھائے ہوئے ہیں۔ مصنف نے بڑی محنت سے ان میں اصلیت کا رنگ بھرا ہے اور مختلف زاویوں سے ان پر روشنی ڈالی ہے۔ دوسرے وہ جو ذرا دیر کو نظر آتے ہیں اور نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ہمارے دل و دماغ پر دائنی نقش چھوڑے بغیر نہیں رہے۔ ناول کے مرکزی کردار ہیں : خانم حسینی بوا بسم اللہ جان ، خورشید جان گوہر مرزا نواب سلطان رام دئی اور سب سے بڑھ کر خود امراو جان۔ ان میں سے

خانم کو لیجئے۔ خانم سے ہماری پہلی ہی ملاقات اس قدر بھرپور ہے کہ اس کے خدو خال پوری طرح نمایاں ہو جاتے ہیں۔ مصنف اس کا تعارف ان الفاظ میں کراتا ہے۔” اس زمانے میں ان کا بن قریب پچاس برس تھا۔ کیا شاندار بڑھیا تھی۔ رنگ تو سانولا تھا مگر ایسی بھاری بھر کم جامہ زیب عورت دیکھی نہ سنی۔ بالوں کے آگے کی تیں بالکل سفید تھیں۔ ان کے چہرے پر بھلی معلوم ہوتی تھیں۔ مل کا درینہ سفید کیسا باریک نچنا ہوا کہ شاید و باید اودے مشروع کا پاجامہ بڑے بڑے پائنچے ہاتھوں میں موٹے موٹے سونے کے کڑے کلائیوں میں پھنے ہوئے کانوں میں سادی دو انتہاں لاکھ لاکھ بناؤ دیتی تھیں۔ پلنگڑی سے لگی ہوئی قالین پر بیٹھی ہیں۔ کنول روشن ہے۔ بڑا سا نقشی پاندان آگے کھلا رکھا ہے۔ سامنے ایک سانولی سی لڑکی ناچ رہی ہے۔“

ناول آگے بڑھتا ہے تو قدم قدم پر اس شاندار بڑھیا کا رعب داب نظر آتا ہے اور اس کی معاملہ فہمی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ مول تول کر کے امیرن کو تو وہ خرید لیتی ہے اور جب پتا چلتا ہے کہ رام دئی بکن داموں کی تو کہتی ہے ” اتنے تو ہم بھی دے دیتے۔ لڑکیوں کے اغوا کر کے بیچ ڈالنے پر اس کا یہ جملہ کہ موے خدا جانے کہاں کہاں سے معصوم بچیوں کو اٹھالاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ رائے کہ عذاب ثواب تو انھی کم بختوں کو ہو گا۔ یہاں نہ بکتی تو کہیں اور بکتی ، اس زمانے کی ریا کاری پر روشنی ڈالتا ہے۔ نواب سلطان کے ہاتھوں خاں صاحب کا قتل ہو جانے پر وہ ذرا نہیں گھبراتی۔ ان کی لاش کو اُٹھا کر پھگوا دیتی ہے۔
گوہر مرزا کا کردار بھی غضب کا جیتا جاگتا اور دلچسپ کردار ہے۔ امراو جان رسوا سے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں “ڈو منی کا بیٹا تھا۔ قدرتی لے دار آواز ” ںتانے میں مشاق ہوئی ہوئی پھڑکتی تھی۔ ادھر میں نے سر سے آگاہ۔ جب مولوی صاحب کتب میں نہ ہوتے تھے تو خوب جلسے ہوتے تھے۔ کبھی میں گانے لگی وہ ، بتانے لگا۔ کبھی وہ گا رہا ہے، میں تال دے رہی ہوں۔ بغیر میری اس کی سنگت کے
لطف نہ آتا تھا۔”
یہ ہر مرزا بھی عجب ذات شریف ہیں ۔ مطلبی، مکار کام چورا نواب سلطان نے امراو جان کو نذرانے میں اشرفیاں بھیجی ہیں ۔ آدمی یہ بطور انعام ہڑپ لیتے ہیں۔ بے شرم ایسے کہ چھپاتے بھی نہیں۔ امراء کو مفت مشورہ دیتے ہیں خانم سے یہ اشرفیاں چھپا جاؤ۔ میرے وقت میں کام آئیں گی ۔ یہ امراو جان کے باغ جوانی کے پہلے خوشہ چیں ہیں۔ امراء کے دل میں بھی ان کے لیے نرم گوشہ ہے۔ آخر تک انھیں بھرے جاتی ہیں اور یہ بے حیا مفت کی روٹیاں توڑے جاتے ہیں ۔ خیر
کچھ بھی سہی میں بہت الچسپ ۔

نواب سلطان شرمیلے کم سخن انسان ہیں۔ بیگم جو کبھی رام دئی تھیں ان کی قدردانی اور وفاداری کا کلمہ پڑھتی ہیں گو ساتھ میں یہ بھی کہتی ہیں کہ بظاہر کچھ کرتے ہوں تو اس کی خبر نہیں۔ اور اصلیت بھی میں ہے کہ کو بھی کے اندر وہ بیوی کے فرمانبردار شوہر مگر یا ہر امراو جان کے جاں نثار عاشق ہیں۔ ان تمام اہم کرداروں کا ذکر تو اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں مگر اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ سب سے جاندار سب سے دلکش اور دل کو چھو لینے والا کردار امراو جان کا ہے۔ یہ ناول انہی کے نام پر ہے اور شروع سے آخر تک وہی اس پر چھائی ہوئی ہیں۔ ناول نگار نے سب سے زیادہ محنت سے اس کردار کو تراشا ہے

نیم پر چڑھ جانے والے مولوی صاحب اور مسجد میں امراو جان کو دیکھ کر اس خیال سے خوش ہونے والے مولوی صاحب کہ یہ عورت ضرور طاق بھرنے آئی ہے۔ امراؤ جان کو لے اڑنے والے فیض علی نواب سلطان کے ہاتھوں مارے جانے والے خان صاحب بہت ذرا سی دیر کو ہمارے سامنے رہتے ہیں مگر ایسے۔ جاندار ہیں کہ بہار ہے ذہن سے بھی محو نہیں ہو سکتے
ان کرداروں کے خالق نے جزئیات نگاری سے کام لیتے ہوئے ان کے
بارے میں معمولی سے معمولی بات بھی تو سے بیان کردی ہے اور در جن بھر سے زیادہ زندہ جاوید کردار پیش کر کے اردو ناول کے سرمایے میں پیش قیمت انسان اضافہ کر دیا ہے۔

ناول کی تکنیک پر اظہار خیال بھی یہاں بہت ضروری ہے۔ ناول ہو یا افسانہ عام طور پر یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ پورا قصہ واحد غائب کی ضمیر میں بیان کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً مصنف بتاتا ہے کہ ایک لڑکی تھی ان کا نام کبریٰ تھا۔ ایک اور لڑکی تھی اس کا نام صغریٰ تھا۔ ان میں ایک سلیقہ شعار تھی دوسری پھوہڑ وغیرہ وغیرہ (مراۃ العروس از مولوی نذیر احمد) دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مصنف واحد متکلم میں پورا قصہ سنائے۔ مثلا میں نے یہ دیکھا یہ کیا۔ یا پھر کوئی کردار وضع کرے اور وہ سارا قصہ سنائے۔ یہ تکنیک ذرا مشکل ہے لیکن ہے زیادہ پر اثر ۔ کیونکہ ہم ایک ایسے شخص کی زبان سے قصہ سنتے ہیں جو خود افراد قصہ میں شامل ہے۔ اس سے قصے پر ہمارا اعتبار بڑھ جاتا ہے

امرا جان ادا میں ہی تکنیک اختیار کی گی ہے۔ رسوا نے امراو جان کی گئی ملاقات ہو جاتی ہے۔ وہ کرید کرید کر ان سے بیتے دنوں کی باتیں پوچھتے ہیں اور ضبط تحریر میں لاکر ایک مکمل ناول تیار کر دیتے ہیں جسے امراو جان کی سوانح عمری بھی کہا جا سکتا ہے – اس تکنیک سے مصنف نے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ رسوا خود مرزا محمد ہادی تو نہیں لیکن ان کے نمائندے ضرور ہیں۔ وہ قصے کو قابو میں رکھتے ہیں۔ بعض مقامات ایسے آتے ہیں کہ امراو جان اگر اپنے ماضی کے تھے بے کم و کاست کہہ دیں تو یہ بےحیا کھلائیں ۔ ایسے موقعوں پر رسوا کرید کرید کر اور اصرار کر کے ان سے بہت کچھ معلوم کر لیتے ہیں۔ بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں امراو جان کو فطری طور پر بہت کچھ کہنا چاہیے لیکن اس سے ناول کو آگے بڑھانے میں مدد نہیں مل سکتی۔ ایسے موقعوں پر رُسوا کہہ اٹھتے ہیں کہ جانے بھی دیجیے۔ اس غیر ضروری تفصیل سے کیا فائدہ۔ اس طرح ناول کے واقعات قابو میں رہتے ہیں۔ مصنف نے یه تکنیک بہت سوچ سمجھ کر اختیار کی ہے۔

اصلیت و واقعیت سے ادب میں یہ مراد نہیں کہ وہی پیش کیا جائے ، جو بچ چ پیش آچکا ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ ایسا ہونا قرین قیاس ہے ایسا واقعہ پیش آنا بالکل ممکن ہے۔ مثلا یہ ضروری نہیں کہ مولوی نذیر احمد کے ناول مراۃ العروس کی اکبری اور اصغری کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں ضرور ہو گزری ہوں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ اس طرح کی لڑکیوں کا وجود ممکن ہے یا نا ممکن۔ اگر ممکن ہے تو اسی کا نام اصلیت و واقعیت ہے۔ یہ بحث اکثر اٹھتی رہی ہے کہ امراد جان نام کی کوئی طوائف اصلیت میں ہو گزری ہے یا یہ مصنف کے ذہن کی پیداوار ہے۔ اگر ہو گزری ہے اور اس نے جو واقعات خود بیان کیے ، مصنف نے ان کو قلمبند کردیا تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ اس سے مصنف کا رتبہ گھٹ جاتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ قصہ تو انھیں بنا بنایا مل گیا۔ انھوں نے صرف ات لکھنے کی زحمت کی اور ناول نگار بن گئے۔ اگر امراو جان اصلیت میں تھی ہی نہیں۔ یہ کردار مصنف نے خود وضع کر لیا تو ان کا مرتبہ دو گنا ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ ایک تو انھوں نے قصہ گڑھا واقعات کی ترتیب قائم کی اور اسے لفظوں میں ڈھالا۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کے غدر کے ارد گرد اس نام کی کوئی طوائف لکھنو میں نہیں ہوئی البتہ اس سے پہلے ہو گزری ہے۔ رسوا بھی خود مرزا محمد ہادی نہیں۔ ان کا تخلص ہادی تھا رسوا نہیں۔ رُسوا مرزا محمد ہادی کا وضع کیا ہوا ایک کردار ہے۔ ثبوت یہ کہ محمد ہادی ۱۸۵۸ء میں پیدا ہوئے۔ جو واقعات امراو جان سناتی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ غدر کے زمانے تک زندگی کی بہت سی برساتیں ان پر گزر چکی تھیں۔ مرزا کی ولادت کے وقت امراو جان کی عمر تمہیں پینتیس سے کم تو کسی طرح نہیں رہی ہوگی۔ جن کی عمروں میں اتنا فرق ہو ان کے درمیان ایسی بے تکلفی نہیں ہو سکتی جیسی مرزا اور امراو جان کے درمیان ہے۔ اصلیت یہ ہے کہ مرزا نے رُسوا نام کا ایک کردار گڑھ لیا تھا اور اسی کے ذریعے قصہ سنوایا تھا۔ جب ناول شایع ہوا تو اس کے واقعات لوگوں کو بالکل اصلی لگے اور لوگ مرزا سے پوچھنے لگے کہ رُسوا کیا آپ ہی ہیں ؟ آخر کار انھوں نے بھی تسلیم کر لیا کہ جی ہاں میں ہی رُسوا ہوں۔ امراو جان نے اپنی آپ بیتی مجھی کو سنائی تھی۔ چنانچہ ہمیں بھی یہ تسلیم کرنے میں کیا عذر ہو سکتا ہے کہ مرزا محمد ہادی ہی رُسوا تھے) یہی نہیں امراو جان میں اور اصلیت پیدا کرنے کے لیے انھوں نے ایک قدم اور بڑھایا۔ انھوں نے کہا کہ ناول کو پڑھ کر امراو جان بہت برا فروختہ ہو ئیں اور کہا کہ جو کچھ میں نے تم پر اعتماد کرکے تمہیں بتا دیا تم نے اسے طشت از بام کر کے مجھ کو بد نام کردیا۔ خیر میں بھی اس کا بدلہ لوں گی۔ انھیں معلوم تھا کہ کسی زمانے میں مرزا ایک یورپین خاتون پر مرتے تھے۔ اس کی جدائی میں مرزا پر جو کچھ گزری اسے انھوں نے ” نالہ رُسوا مثنوی میں رقم کر دیا تھا۔ امراو جان مرزا کی عدم موجودگی میں ایک بار ان کے گھر آئیں اور نالہ رُسوا کا مسودہ لے اڑیں ۔ بدلہ لینے کے لیے امراو جان نے اسے شایع کر دیا ۔ یہ سارا قصہ من گھڑت ہے۔ یہ سب مرزا کی کارستانی ہے۔ یہ مثنوی مرزا نے خود شایع کی اور یہ واقعہ محض ناول میں اصلیت کا رنگ اور گہرا کرنے کے لیے وضع کر لیا۔ اصل بات یہ ہے کہ ناول کا ایک ایک کردار اصلی لگتا ہے۔ کسی واقعے پر فرضی ہونے کا گمان نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ ناول شایع ہوا تو اکثر لوگ امراو جان کی ایک جھلک دیکھنے کی خواہش دل میں لیے لکھنئو آتے تھے اور ان کا پتا پوچھتے
پھرتے تھے۔

ناول کی فضا بالکل ویسی ہی ہے جیسی اس زمانے کے لکھنو کی تھی۔ عیش و عشرت کا بازار گرم تھا فارغ البالی کا دور دورہ تھا۔ طوائفوں کے کوٹھے ہے رئیسوں اور نوابوں کی آماج گاہ بنے ہوئے تھے۔ جابجا راگ رنگ کی محفلیں آراستہ ہوتی تھیں۔ شعر و شاعری کی فضا غالب تھی اور مشاعروں کا عام رواج تھا۔ میلوں اور غرسوں میں خوب رونق ہوتی تھی۔ تہوار بڑی شان سے منائے جاتے تھے۔ عرض اس ناول میں لکھنو پوری طرح جی اٹھا ہے۔

ناول کی زبان اس عہد کے تقاضے کے مطابق ادبی بلکہ شاعرانہ ہے۔ امراو جان خود کرتی ہیں۔ شعر و شاعری کی محفل ہی رسوا سے ان کی شاعرہ ہیں اور ادا تخلص کرتی ہے۔ شعر و شاعری کی محفل میں ہی رسوا سے ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ ناول کا آغاز ہی اس شعر سے ہوتا ہے :

ہم کو بھی کیا کیا مزے کی داستانیں یاد تھیں

لیکن اب تحمید ذکر دَردِ ماتم ہوگئیں

اس کے بعد بھی جابجا حسب حال اشعار سے کام لیا گیا ہے۔ زیادہ تر ابواب کسی نہ کسی شعر سے ہی شروع ہوتے ہیں۔

مکالمہ نگاری میں بھی امراو جان ادا کے مصنف نے حد درجہ مہارت اور سلیقہ مندی کا ثبوت دیا ہے۔ لکھنو کے مختلف طبقوں کی بول چال سے وہ بخوبی واقف تھے۔ انھوں نے ہر کردار کے منہ سے وہی مکالمے ادا کرائے ہیں جو اس سے کامل مطابقت رکھتے ہیں۔ مثلا خانم کی گفتگو سنے تو احساس ہوتا ہے کہ ایک زمانہ شناس دنیا کے نشیب و فراز سے آگاہ طوائف محو کلام ہے۔ بوا حسینی ، خورشید جان بسم اللہ جان کے ڈائلاگ ان کے الگ الگ مزاجوں کے آئینہ دار ہیں۔ گو ہر مرزا نواب سلطان اور مولوی صاحب کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ صاحب کلام کے کردار کی نقاب کشائی کرتا ہے اور ان کی نفسات سے قاری کی آگ کی امراؤ جان جب اپنے پیشے سے توبہ کر چکیں اور صرف ناچ مجرے پر بسر اوقات رہ گئی اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں :

” اکثر میرے جی میں آیا کہ کسی مرد آدمی کے گھر یہ جاؤں لیکن پھر خیال آیا لوگ کہیں گے رنڈی تھی کفن چونکا گیا ”

حاصل کلام یہ کہ امراو جان اردو کا پہلا ناول ہے جو فن کی کسوٹی پر پورا اتراتا ہے۔ اسے مرزا محمد ہادی رسوا کا بے مثال کارنامہ اور اردو کا شہکار ناول کہنا بجا ہے۔

 

تحریر از ڈاکٹر سنبل نگار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×