امراؤ جان ادا کے کردار کا ایک پہلو

کچھ نہ پوچھو شباب کا عالم
کیا کہوں کیا عجب زمانہ تھا
امراؤ سے امراؤ جان کا سفر دراصل ایک حقیقی طوائف کی عملی زندگی کا دور ہے۔ امراؤ کا آغاز اور انجام دونوں ہی المناک (tragic ) ہیں ۔طوائف کی زندگی کا آغاز 14 برس کی عمر میں ہوا۔ جب پہلی بار نواب شجاعت علی خان کے لڑکے کی شادی میں پہلا مجرا کرنے کا موقع ملا ۔جہاں خانم نے اسے ایک مشہور بائی کے مدمقابل گانے کے لیئے کہا۔ محفل میں ہر شخص اس کی آواز سے محفوظ ہوا اور خوب داد ملی۔ امراؤ کو جو رشک اپنی ہم جولیوں کی قسمت پر ہوتا تھا ۔ آج پوری محفل کی توجہ کا مرکز بن کر کسی حد تک کم ہوتا نظر آتا ہے ۔ امراؤ جان کی زندگی میں دوسرا اہم واقعہ نواب سلطان صاحب کی قربت ہے ۔جو روز بہ روز بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ امراؤ جان کے دل میں بھی گھر کر لیتی ہے ۔ یوں امراؤ جان کو زندگی میں گوہر خان کے سواہ بھی کوئی چاہنے والا ملتا ہے ۔ عورت کی زندگی میں چاہ جانے کا جزبہ بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ ہر عورت کو ستائش کی تمنا ہوتی ہے کہ اسے ،اس کے حسن ، اس کے فن کو سرہایا جائے ۔ امراؤ جان پیدائشی طوائف نہیں تھی اس لیئے اس کے دل میں عزت اور گھر بسانے کی خواہش موجود تھی ۔ لیکن نواب صاحب کی صورت اسے جو خوشی ملی تھی وہ چند دنوں کی تھی ۔ ایک ناخوشگوار واقعے کی بناپر نواب سلطان کی آمد ہمیشہ کے لیئے روک جاتی ہے ۔ 17 برس کی عمر میں امراؤ جان نواب جعفر علی خان کے ہاں ملازم رہیں۔ سوز خونی کی وجہ سے امراؤ جان کو ملکہ کشور تک رسائی ملی ۔ ان تمام کامیابیوں کے باوجود امراؤ جان کے دل میں امیرن کہیں نہ کہیں موجود تھی ۔ امراؤ جان کے دل میں لوگوں کے لیئے ہمدردی اور رحم کا جزبہ موجود تھا۔ جو ناول میں جا بجا نظر آتا ہے ۔نواب صاحب کی خودکشی سے پہلے امراؤ جان انہیں روک کر سمجھانا چاہتی ہوتی ہے مگر وہ تیزی سے نکل جاتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ جب بسم اللہ مولوی صاحب کو درخت پر چڑھاتی ہے تو امراؤ جان دل سے برا مانتی ہے ۔ ان واقعات سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ امراؤ جان کے دل میں عام انسان کے لیئے احساس ہمدردی ہے ۔ ایک دن تینوں ہم جولیوں میلہ دیکھنے جاتی ہے واپسی پر خورشید کہیں نہیں ملتی ۔ کوٹھے پر اک آفت برپا ہو جاتی ہے ۔ انہی دنوں امراؤ جان کے پاس ایک اوباش قسم کا آدمی آتا ہے ۔ جو امراؤ جان کو پہلی ملاقات پر ایک نظر نہیں بھاتا ۔ مگر وہ جاتے وقت امراؤ جان کو تین انگوٹھیاں دے کر جاتا ہے ۔ یوں فیض علی کی آمد ہوتی رہتی ہے اور وہ امراؤ جان کو اپنی محبت کا یقین دلاتا ہے اور اسے بہت سے قیمتی زیورات و اشرفیاں دیتا ہے ۔ امراؤ کا سادہ دل ایک بار پھر یقین کر لیتا ہے ۔ اور فیض علی کی محبت میں کوٹھا تک چھوڑ دیتی ہے ۔ کوٹھا چھوڑنے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے سر سے چھٹ چھن گئی ہے ۔ رستے میں ڈاکوؤں کا حملہ ہوتا ہے ۔ فیض علی بھاگ جاتا ہے ۔ اور امراؤ جان کو راجا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ۔ وہاں اس کی ملاقات خورشید جہاں سے ہوتی ہے ۔ چند دن خورشید جہاں کے پاس رہنے کے بعد وہ راجا سے اجازت لے کر وہاں سے نکل پڑتی ہے ۔ فیض علی سے دوبارہ اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ اور امراؤ جان کو گھر میں ٹھہرا کر وہ غائب ہو جاتا ہے ۔ امراؤ گھر سے نکل کر مسجد میں جاتی ہے اور وہاں مولوی کی مدد سے کانپور میں اپنے لیئے ایک مکان کرائے پر لیتی ہے ۔ چند ہی دنوں میں تمام شہر میں اس کی گائیکی مشہور ہو جاتی ہے ۔ کوئی تقریب ہو امراؤ جان کو ضرور بلایا جاتا تھا ۔ ایک دن اسے بڑی بیگم کے لڑکے کی سالگرہ کے موقع گانے کے لیئے بلایا جاتا ہے ۔بڑی بیگم وہ خاتون تھی جو بچپن میں اس کے ساتھ اغواء ہوئی تھی ۔ رات کو فضل علی اور اس کے ڈاکو چوری کی غرض سے آتے ہیں مگر امراؤ جان کو دیکھ کر اپنے ارادے سے باز رہتے ہیں ۔ لکھنؤ کے اجڑنے کے بعد امراؤ جان فیض آباد کب رخ کرتی ہے ۔ وہاں ایک نواب سے اسے اپنے باپ کی وفات کا پتہ چلتا ہے ۔ تمام رات قیامت کی طرح گزرتی ہے ۔ وہاں اسے ایک دن اپنے پرانے گھر کے ساتھ والے گھر میں تقریب کے لیئے بلایا جاتا ہے ۔ اس کی ماں اسے پہچان لیتی ہے ۔ ماں کے پاس سے جانے کے بعد اگلی صبح اس کا بھائی اسے قتل کرنے کی غرض سے وہاں آتا ہے ۔ مگر اپنے ارادے سے باز رہتا ہے ۔ اگلی صبح امراؤ جان لکھنؤ لوٹ جاتی ہے وہاں نواب محمود خان کہتا ہے کہ امراؤ جان میرے نکاح میں ہے ۔ لمبا عرصہ یہ کیس چلتا رہتا ہے ۔ اس زمانے میں امراؤ جان اکبر علی خان کے گھر میں رہتی ہے ۔ تمام لوگوں سے رابطے ترک کر دیتی ہے ۔ اور پانچ وقت کی نماز کی پابند ہو جاتی ہے ۔ ان تمام واقعات کا امراؤ جان کی زندگی میں وقوع پزیر ہونے اسے ایک طوائف سے پختہ عورت بنانے کا سفر ہے ۔ ان تمام واقعات سے جو امراؤ جان کی نفسیات کا پتہ چلتا ہے وہ یہ ہے کہ امراؤ جان طوائف ہونے کے باوجود اس کے دل میں امیرن زندہ تھی ۔تمام زندگی طوائف بنے رہنے کے باوجود اس میں طوائف جیسی نفسیات نہ پیدا ہو سکی ۔ وہ اپنی زندگی سے غیر مطمئن تھی اس لیئے اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس زندگی سے آزادی حاصل کر سکے ۔امراو جان کے دل میں گھر بسانے کی آرزو ہمیشہ سے رہی ۔ جس کی وجہ سے ایک بار نواب سلطان پر اور پھر فیض علی پر اعتبار کیا ۔ سادگی کا یہ عالم تھا ہر بار حوادثات کے جھانسے میں آگئی۔ ہر بار لوگوں پر اعتبار کیا ۔ زندگی جہاں لے چلی وہیں بس گئی۔ امراؤ جان کو آزادی ، عزت ، روپیہ سب ملا۔ مگر ایسے دل سوز واقعے بھی ہوئے جو اس کی روح کو آہستہ آہستہ دیمک کی طرح چاٹتے رہے ۔ محبوب سے بچھڑنا موت ہے اور بچھڑ کر پھر ملنا دوسری موت ہے ۔ امراؤ جان کو بھی اس دوہری موت کی اذیت سے گزرنا پڑا ۔ دونوں بار زمانے کے ستم کی وجہ سے اسے اپنوں سے جدا ہونا پڑا ۔ایک بار کمزور طبقہ سے ہونے کی وجہ سے اور دوسری بار معاشرے کے رسم و رواج کی وجہ سے وہ اپنوں سے جدا ہونے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔ امراؤ جان کے دور میں زندگی اسے انتخاب کا مکمل حق دیتی ہے وہ خود اپنے لیئے رستوں کا تعین کرتی ہے ۔ مگر قسمت کے ہاتھوں ہر بار اک نیا زخم اپنی روح میں سمو لیتی ہے ۔یوں امراؤ جان تمام عمر زمانے کی زنجیر میں قید رہتی ہے ۔
ہُو کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیر صدا کرتی ہے
عرفان صدیقی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×