ہے قیامت ترے شباب کا رنگ
رنگ بدلے گا پھر زمانے کا
اختر شیرانی
زندگی کے ہزاروں پیچ و خم سے گزرتے ہوئے اپنے عنفوان شباب کے زمانے میں امراؤ جان لکھنؤ کے چوک میں موجود ایک بلند کوٹھے کی نستعلیق طوائف بن جاتی ہے ۔ کوٹھے کی خارجی ماحول ، بچپن سے اس کی خانم کے نوچیوں کے ساتھ تعلم و تربیت اسے ایک نستعلیق طوائف تو بنا دیتی ہے لیکن شریف زادیوں کی فطرت یا پچپن کی نشاط و بے فکری جس سے وہ محرم ہو چکی اسے اپنے ہم جھولیوں کی بے فکر نہیں رکھتا ۔
امراؤ جان اس دور میں ایک طرف سکون و عافیت میں ہوتی ہے چونکہ وہ لحمہ موجود میں عموماً خوش ہوتی ہے ۔ لیکن پہ درد پہ زندگی نئے حالات و واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ نواب ، بیگم رام رائی ، نواب جعفر علی خاں ، اکبر علی خان ، فیض علی اور کانپور والے مولوی جیسے طرح طرح کے لوگ اس کی زندگی کا حصہ بنتا ہے لیکن گردش چرخ کہن وہ ہمیشہ در پدر ہی رہی ہے ۔ یہاں تک کہ اس کا اپنا گھر بھی اسے قبل نہیں کرتا ، خون خون کو پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے جس کے ایک مکمل اندورنی تنہائی والے کیفیت زیارہ شدت اختیار کر جاتی ہے ۔ یہاں امراؤ جان مکمل نفسیاتی طور پہ تنہا ہو جاتی ہے
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا
گلزار
اس دور کے نفسیاتی عنصر بہت اہمیت کا حامل ہے یہاں وہ شد و مد سے اپنے بچپن کی خلا کو ڈاکو فیض علی کے ساتھ مل کر پورا کرنا چاہتی ۔ لیکن یہاں جب وہ دکھا کھاتی ہے تو اپنی قسمت کو کوستی ہوئی کہتی ہے
میں نے جس ہاتھ کو تھما وہی خنجر نکلا ۔
گھر بار کی خواہش مکمل طوائف بنے کے بعد بھی اس کے لاشعور میں موجزن ہے ۔ لیکن قسم کی ہر قدم پہ ٹھکر ہی ملتے ہیں ۔ بیگم رام رائی کی قسم اور اپنی قسم کا موازنہ کرنے کے بعد وہ فلسفہ تقدیر میں عرق ہو جاتی ہے ۔ وہ خود کو دل ہی دل میں کوستی ہے یہاں ایک قسم کا inferiority complex تقدیر کی رو سے اس کے دل و دماغ میں راسخ ہو جاتا ہے ۔
اس دور میں عیش و عشرت ، وضع قطع ، تصنع و آرائش ، کر و فر ، شان و شوکت ، رکھ رکھاؤ اور فارغ البالی نہ صرف امراؤ جان کی زندگی میں بلکہ پورے لکھنؤ کی تہذیب میں نظر آتی ہے ۔ یہی وہ تہذیب ہے جیسے شرر نے آخری قرار دیا ہے۔ یہاں ہم پورے تہذیب کی نفسیات کو احسن طریقے سے دیکھ پاتے ہیں ۔
امراؤ جان کی نفسیات کی بعض اوقات بھر پور ڈرامائی پیچیدگی مکمل طور پہ پیش نہیں کیا گیا مثلاً فیض علی کے ساتھ خانم کے کوٹھے سے بھاگ جانا یا بخشی کے تال کے پاس دلاور خان کو دیکھ کر امراؤ جان ادا کے تاثرات اور کانپور کے مولوی صاحب کو دیکھ کر امراؤ جان ادا کا مسکرا دینا ۔ ان مواقع پہ تحلیلی عکس کشی قدرے کم روز نظر آتی ہے ۔ لیکن مجموعی طور پہ اس پورے عہد میں اور اس کے بعد بھی psychoanalytic factor ناول میں اپنا خاص رنگ رکھتا ہے