انتظار حسین
ممتاز فیکشن نگار انتظار حسین 21 دسمبر 1925 کو ڈبائی اتر پردیش برطانوی ہند میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والدین کو پہلے چار بیٹیاں ہوئی انھیں ایک بیٹے کی تمنا تھی بل آخر جب وہ پیدا ہوئے تو ان کا نام انتظار حسین رکھا گیا ۔ انتظار حسین نے میرٹھ کالج سے بی اے کیا اور یہی سے انھوں نے ایم اے بھی کیا ۔ تقسیم کے بعد محمد حسن عسکری کی دعوت پہ پاکستان آئے اور صحافت سے وابستہ ہوگئے ۔ انھوں نے 1948 ہفت روزہ نظام میں بطور مدیر ، امروز میں نائب مدیر کے خدمات سر انجام دے اس کے علاؤہ روزنامہ اتفاق ، لاہور نامہ ، روزنامہ آجکل ، ایکسپریس ، سویل اینڈ ملٹری گزٹ ، فرنٹیئر ، ڈان ، خیال اور ادب لطیف جیسے اخبار و رسائل میں کام کرتے رہے ۔ وہ حلقہ اربابِ ذوق کے سیکرٹری بھی رہے ۔ ان کے ہم عصر ادیبوں میں حسن عسکری ، ناصر کاظمی ، احمد مشتاق ، شیخ صلاح الدین ، مسعود اشعر ، حنیف رامے اور صفدر میر وغیرہ بہت اہمیت کے حامل اور مشہور ہے ۔
انھوں نے ادبی زندگی کا آغاز لسانیات پہ ایک کتاب سے کیا جو شائع نہ ہو سکا انھوں نے شاعری اور تنقیدی میں بھی طبع آزمائی کی ۔ لیکن فیکشن نگاری میں عروج حاصل ہوا
ان کے ہاں حکایتی اسلوب ، تقسیم کے تجربے کا تخلیقی بیان ، اساطیر اور دیومالائی رنگ ، داستانوں فضا موجود ہے ۔ وہ اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ انتظار حسین کی اردو کوثر و تسنیم میں دھلی نہیں ہے مگر گنگا میں دھلی ضرور ہے ۔ ان کے ہاں خاص ہندوستانی ماحول اور ہندوستانی فضا موجود ہے اس کے علاؤہ علامت نگاری کے گہرے نقوش ان کے فن کا خاصہ ہے
ان کے ناولوں میں بستی ، چاند کہن ، آگے سمندر ہے اور تذکرہ شامل ہے جبکہ افسانوی مجموعوں میں خیمے سے دور ، آخری آدمی ، کنکری، دن اور داستان ، جنم کہانیاں ، خالی پنجرہ ، گلی کوچے ، کچھوے اور شہر افسوس وغیرہ بہت اہمیت کے حامل ہے ان کے علاؤہ انھوں نے تراجم بھی کئے جن میں گھاس کے میدانوں (ناول ) چیخوف ، فلسفہ کی نئ تشکیل ( فلسفہ ) جان ڈیوی اور An Unwritten Epic and other Stories وغیرہ بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہے ۔ ان کے سفر ناموں میں نئے شہر پرانی بستیاں اور زمین اور فلک اور بہت زیادہ مشہور ہے ان سب کے علاؤہ تنقید میں بھی انھوں نے قابل قدر کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں علامتوں کا زوال اور نظریے سے آگے دو اہم ترین کتابیں ہیں ۔ ان کا سب سے پہلا افسانہ قیوما کی دکان 1948 میں منظر عام پر آیا جیسے حلقہ اربابِ ذوق میں پیش کیا گیا جس کے بعد دوسرا افسانہ ” استاد” انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں پیش کیا گیا جیسے بے حد پسند کیا گیا ۔ انھوں نے مغربی اسلوب کی بجائے خاص ہندوستانی فضا کے زیر اثر فکشن لکھا ان کے تحریروں میں ماضی کے نوحے ، اپنی رویات ، تہذیب اور ماضی میں پناہ ، اور نئے اور پرانی تہذیب کی کشمکش نظر آتا ہے ۔
وہ پہلے ایسے ادیب ہے جن کو بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا ۔ انھیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی ، کمال فن ایوارڈ اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے ، ستارہ امتیاز ، فروغ ادب ایوارڈ ، بابائے اردو مولوی عبد الحق ایوارڈ ، انڈیا کا پاترا ایوارڈ اور فرانس کا ادبی اعزاز Ordre des Arts et des Letter وغیرہ سے نوازا گیا۔
ان کا انتقال فروری 2016 کو لاہور میں ہوا ۔