ڈاکٹر انیس ناگی
کچھوے
انتظار حسین کا تازہ افسانوی مجموعہ ” کچھوے” (1981ء) ان کے سولہ افسانوں پر مشتمل ہے جو شہر افسوس کی اشاعت کے بعد وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں۔ کچھوے” میں سے اگر “خواب اور تقدیر” کو منہا کر دیا جائے تو یہ شاید انتظار حسین کا تخلیقی اعتبار سے ایک کمزور افسانوی مجموعہ ہے۔ یہ ایک طرف ان کے تخلیقی تجربات میں تکرار اور محدودیت کا اعلان کرتا ہے اور دوسری طرف یہ ان کے ذہنی ANACHRONISM کی ایک نئی جہت نمایاں کرتا ہے ، تا ہم ان کا افسانہ ” ہندوستان سے ایک خط ان کے طرز فکر، تصور تاریخ اور عصری شعور کی قدرو قیمت متعین کرتا ہے ۔ ” کچھوے اس وقت شائع ہوا ہے جب ان کی عمر پچپن برس کے لگ بھگ ہے، ان کے چھ سات افسانوی مجموعے اور دو ناول شائع ہو چکے ہیں۔ انتظار حسین اپنی تخلیقات، صحافتی مصروفیات اور تیزی سے ضعیف ہوتی نئی پود کے سر براہ ہونے کے ناطے توقعات کو جنم دیتے ہیں ، وہ ایک خصوصی ادبی رویے کے حامل ہیں جس کے وصف معاصر ادبی تنقید ان کی تخلیقات کا وہ تخمین نہیں کر سکی جس کی وہ مستحق ہیں ، یہ الجھن خود انتظار حسین کی آفریدہ ہے۔ ایک طرف وہ اردو ریلسٹ افسانہ کی روایت سے اپنے آپ کو منفک کر کے داستانی ادب سے اپنا علاقہ قائم کرتے ہیں، دوسری طرف وہ نئے افسانہ نگاروں سے تسمہ لنگوٹا نہیں باندھتے کہ وہ تجریدی مہلات کا شکار ہیں۔ وہ اس کے حوالے سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ساری تاریخ ایک جیتا جاگتا آج ہے ، وہ اپنے آپ اور باقر مہدی کو سوم دیو جی کا ہمعصر کہتے ہیں ، وہ اس بات پر مسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ اہل مشرق ہمیشہ اپنے آپ کو دوہراتے ہیں، جیسے مہاتما بدھ اور قرۃ العین حیدر، اس لیے ان کے افسانوں میں اگر تکرار کا احساس ہو تو اسے اہل مشرق کا خاصہ سمجھنا چاہیے۔ ادبی یا فلسفیانہ استدلال، انتظار حسین کے بس کی بات نہیں ہے ، وہ افسانہ نویس ہیں، وہ کہانی بنا سکتے ہیں، وہ فکر کی جولیات سے گریز کر کے تاریخ کا باطنی اوراک کرتے ہیں ، ان کا تصور تاریخ زمانی اعتبار سے مدور حرکت کا حامل ہے، اس میں انسانی تاریخ کے قدیم واقعات نئے واقعات کو جنم نہیں دیتے بلکہ وہ آج بھی بار بار اپنا اعادہ کر رہے ہیں۔ اس لیے ان کے افسانوں میں اساطیری کہانیاں، قدیم مذہبی قصے فوک لور اور انسانی دنیا میں انسانوں کے علاوہ ناطق جانوروں کی چہل پہل بھی نظر آتی ہے۔ ان میں وہی فضا ہے جو قرون وسطی کی تمثیلوں میں ملتی ہے، انتظار حسین کے نزدیک ماضی ایک مدور زمانی حقیقت ہے جو ہر وقت انسان کے ساتھ چلتی ہے، انسان حال میں ماضی کو بسر کرتا ہے۔ انتظار حسین کو ماضی سے محبت ہے۔ اس مراجعت اور رویے کی ایک وجہ اخلاقی بھی ہے کہ زمانہ قدیم میں انسان اور اس کا معاشرہ ان پیچیدگیوں اور منافقتوں کا حامل نہیں تھا جو عہد حاضر کے صنعتی کلچر نے پیدا کر دی ہیں۔ انسان ایک علامت تھا جو ایک مظہر سے دوسرے مظہر میں با آسانی تبدیل ہو جاتا تھا۔ زمانہ حاضر میں شخصی ایوان کھو چکا ہے اور اس کی شناخت اور تصور کی بحالی کے لیے اسے ماضی میں لے جانا ضروری ہے۔ انتظار حسین کا تصور تاریخ لوئی بورگس سے مماثل ہے، اس کا تخیل اور ذہن بھی قدیم تہذیبوں میں گھومتا پھرتا ہے۔ ہر دو مصنفوں کے افسانوں کے کردار بعض اوقات ایک ہی وقت میں مختلف زمانوں میں سفر کرتے ہیں، غیر شعوری طور پر وہ عہد جدید میں بھی وہی رسوم ادا کرتے ہیں جو عہد عتیق سے عبارت ہیں، ان کے نزدیک انسان اپنے حال کو اپنے ماضی کے ذریعے بسر کرتا ہے۔ ان دونوں مصنفوں میں البتہ فرق یہ ہے کہ لوئی بورگس کی ذہنی ساخت نیم فلسفیانہ ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں تصورات کی تشکیل کرتا ہے، اساطیر کی نئی تو جیہات پیش کرتا ہے، لوئی بورگس کے افسانے تقلیب معانی کی متنوع اشکال پیدا کرتے ہیں آخری آدمی” خواب اور تقدیر وہ جو کھوئے گئے ۔ ایسے افسانے ہیں جو اساطیری علامتوں کے ذریعے تشکیل معانی کے مختلف منہاج کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وگر نہ عموماً انتظار حسین اساطیر کی معنوی تشکیل نو نہیں کرتے زیر نظر مجموعہ میں پتے ، واپسی ، کشتی اور دیوار میں داستانی لیجے اور قدیم تہذیبی ماحول کا چسکا ہے، لیکن معنوی اعتبار سے یہ اساطیر تمدنی اور مذہبی قصوں کے بیان محض سے آگے نہیں بڑھتے مثلا وہ پتے میں قصوں اور جاتکوں کے ذریعے ایک بھکشو نجے کا قصہ بیان کرتے ہیں بدھ مت سے متعلق تفاصیل کو مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔ لیکن وہ کسی جذباتی حالت یا فلسفیانہ تصور کی یوں تشریح نہیں کرتے کہ انسانی تجربات کی صداقت کو قدیم اور جدید کے حوالے سے از سر نو قائم کیا جائے ۔ وہ افسانہ میں یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ حقیقت کے متلاشی کے راستے میں ناری کا وجود دھیان میں خلل ڈالتا ہے۔ تجربے کی یہ بنیاد بے حد ہلکی ہے۔ سنجے اور کنچنی کا قصہ انا طول فرانس کے مشہور ناول ” تھائسں” کی یاد دلاتا ہے۔ اسی طرح وہ کچھوے” کی کہانی میں یہ بتاتے ہیں کہ ہر نر اور ناری کا اپنا جنگل ہے اور وجدان اپنے پیر اور جنگل میں ہی مل سکتا ہے۔ ” کچھوے ہرمن ہیسے کے ناول “سدھارتا ” سے مماثل تصورکی تائید کرتاہے کہ روحانی واردات ایک شخصی اور نا قابل انتقال تجربہ ہے۔ انتظار حسین کے اس نوع کے افسانوں سے جو تصورات برآمد ہوتے ہیں، وہ کچھ اس طرح کے ہیں: انسان ضعیف البیان ہے ، وہ نفس امارہ کے ہاتھوں بے بس ہے، اس کا باطن گدلا ہے ، وہ ظالم ہے، دنیا اس کے من میں بوجھ پیدا کرتی ہے، ظاہر ہے کہ ان تصورات کا تعلق مذہبی یا نیم مذہبی مابعد الطبیعات سے ہے، خواہ وہ تو رات سے الہام لیتی ہو یا ہزار داستان سے یا پھر بدھ مت سے، ان تصورات تک پہنچنے کے لیے انتظار حسین کے بیشتر اساطیری اور بعض عہد جدید کے کردار جادو، تائید غیبی ، ضعیف الاعتقادی بلکہ ان تمام غیر عقلی تجربات اور مراحل سے گزرتے ہیں، جو ایک قدیم انسان کے جذباتی اور روحانی واردات کا حصہ رہے ہیں۔ وہ اپنے ناول بستی فراموش، اور دیگر افسانوں میں یوپی کے نچلے طبقے کی جو تفاصیل پیش کرتے ہیں وہ بھی اس طبقے کے جذباتی اور عقلی ضعف کا ثبوت بہم پہنچاتی ہیں: بلی راستہ کالٹی ہے، گنبد کا سفید کبوتر اچانک غائب ہو جاتا ہے، کبھی سفید ریش بزرگ نمودار ہوتا ہے۔ انتظار حسین کے کردار ان علامتوں کے ظہور سے نا گہانی واقعات کا جواز پیش کرتے ہیں ، یہ تہذیبی علامتیں نہیں ہیں، یہ انسانی اعتقاد کے ضعف کی مختلف حالتیں ہیں جو زمانی اور تصوراتی اعتبار سے کسی شعور کی تسکین نہیں کرتیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انتظار حسین کا مرغوب مشغلہ آر کی ٹائپس کی تشکیل ہے، وہ عہد جدید اور عہد قدیم میں اتصال پیدا کرتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ انتظار حسین کے افسانے قابل زیست نقطہ نظر کو جنم نہیں دیتے ، وہ اساطیر کی مکرر تشریح کی بجائے ان کے اعادے پر قناعت کرتے ہیں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ جہاں بھی تہذیبی علامتوں کو ہمسفر بنایا جاتا ہے۔ وہاں انہیں معاصر صورت حال سے متصل کیا جاتا ہے، یا بصورت دیگر اساطیر کے مقابلے میں مشابہت کے ذریعے نئی اساطیر تخلیق کی جاتی ہیں۔ افسانوی ادب میں یہ وظیفہبے حد مشکل ہوتا ہے، ہر کوئی جوائس کے ہنر کا مالک نہیں ہوتا، انتظار حسین کے کردار قدیم اور جدید طرز زیست کے بارے میں رویوں کا اظہار نہیں کرتے ۔
“نیند “میں مشرقی پاکستان کا سانحہ موضوع ہے۔ “اسیر” میں یہاں کا سیاسی تغیر تفسیر افسانے کا تجربہ بنتا ہے لیکن ان دونوں افسانوں میں ان کے کردار کسی نظریاتی وابستگی کا اظہار نہیں کرتے ، وہ صرف ایک صورت حال میں ہیں اور عوامل کو جنم نہیں دیتے ۔ انتظار حسین کسی قسم کی نظریاتی جانبداری کا اظہار نہیں کرتے ، وہ صرف صورت حال کو معروضی طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ جس سے ان کے اپنے تجربے کی سطح کا سراغ نہیں ملتا اور ان کے کردار جذباتی اور نظریاتی سطح پر گم سم رہتے ہیں۔ ایک تخلیقی شاہکار اپنے فن میں ہمیشہ نظریاتی پوزیشنز اختیار کرتا ہے، اگر وہ غیر جانبدار رہتا ہے تو پھر اس کی تخلیقات روحانی اور جمالیاتی تجربات تو ہو سکتی ہیں زندہ ادب نہیں کہلا سکتیں، نقطہ نظر کے فقدان کے باعث انتظار حسین اپنے افسانوں میں اساطیر کی باز آفرینی نہیں کر پاتے کیونکہ وہ انسانی تجربات کو انسان کے معروض سے متفک کر کے انہیں اپنا موضوع بناتے ہیں۔ اس طرح ان کے بیشتر افسانے روایتی، اخلاقی اور روحانی مسائل کو پیش کرتے ہیں ، اور ان کے معاصر کردار بھی ماضی کی روحانی مہمات کا شکار رہتے ہیں اور نئے علم الکلام کو پیدا نہیں کرتے ۔ انتظار حسین کے کرداروں کے اضطراب کی ایک وجہ ان کی تاریخی اور کلچرل ہجرت ہے۔ یہ اضطراب بھی انتظار حسین کے تصور تاریخ کا نتیجہ ہے، وہ تاریخ کے جامد یا اس کے مدور ہونے پر اصرار کرتے ہیں، وہ ایک تہذیبی نظام سے دوسرے تہذیبی نظام میں اس لیے داخل ہونا پسند نہیں کرتے کہ وہ اپنے تضادات اور غیر عقلی رویوں سے خائف ہیں۔ ”ہندوستان سے ایک خط انتظار حسین کے نظریاتی تضاد کا مظہر ہے، وہ اپنی تہذیبی روایت ہندو مسلمان تمدن سے مرتب کرتے ہیں، لیکن یہ دودھارے ان کے کرداروں میں وحدت اختیار کرنے کی بجائے الگ الگ چلتے ہیں۔ انتظار حسین اپنی شناخت اور ہندو مہا جن کے نظام زر سے محفوظ رہنے کے لیے اسلامی تہذیب کا دور یہ شعوری طور پر قبول کرتے ہیں لیکن لاشعوری طور پر ہندو اساطیر کو بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ ان کے کردار ایک مخصوص آب و ہوا میں رہ سکتے ہیں کیونکہ ان کی زندگیاں مہمات سے عاری ہیں ، وہ قصباتی شہروں کے باشندے ہیں جہاں کی زندگی کا چلن 1857ء کے لگ بھگ کی فضا سے مماثل ہے اور جو قدیمی رسم ورواج کی پابندی کو کسی معاشرتی جبر کے بغیر اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ کیونکہ جونہی وہ اس سے باہر نکلتے ہیں اپنے معنی کھو دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ جس نوع کی زندگی بسر کرتے ہیں وہ مفعولانہ ہے جو کسی عظیم تر عمل کے مظہر کو پیش نہیں کرتی، ان کے یہاں کوئی تضاد نہیں ہے، وہ صرف تغیر سے خائف ہیں اور یہ وہ EXTERIORITY ہے جس سے نہ صرف وہ بلکہ انتظار حسین خود خائف ہیں کہ وہ ایک محفوظ مقام سے ایک نامعلوم منزل کی طرف جا رہے ہیں، دوسری طرف جب وہ پاکستان میں جاتے ہیں تو وہاں انہیں پرانی حویلیوں کی جگہ بنگلے مل جاتے ہیں۔
چچا قربان علی مسرت سے کہتے ہیں تم نے کوٹھی بنوائی ہے بیٹھک میں صوفے بجھے ہوئے ہیں اور ٹیلی ویژن رکھا ہے۔ یہ خبر سن کر خوشی ہوئی ، خدا کا شکر ادا کیا کہ یہاں کی تلافی وہاں ہوگئی ہے۔ یہاں حویلی کا حال اچھا نہیں ہے ذہنی طور پر منقسم یہ کردار جانتے ہیں کہ ہجرت نے انہیں مرفعہ حال کیا ہے، مہاجن کے نظام زر سے رہائی دی ہے۔ انتظار حسین کے کردار اس مرفعہ حالی کو راضی خوشی قبول کر لیتے ہیں لیکن عادتا بڑ بڑاتے رہتے ہیں کہ ان کا خاندان ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بٹ کر بکھر گیا ہے اور اس کے بہت سے افراد مختلف حادثوں میں کام آئے ہیں۔ انتظار حسین کے بیشتر کردار جذباتی ہیں جن کے لیے عظیم المیہ ان کے شجرہ نسب کی گمشدگی ہے، وہ لاشعوری طور پر اس خاندان کی مشکلات کو قافلہ حسین کے مصائب سے جا ملاتے ہیں۔ لیکن انتظار حسین کا قافلہ رقت پیدا نہیں کرتا کہ وہ زندگی میں نئی راہ سلوک پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ وہ صرف اپنی بقا چاہتا ہے جو زندگی کی جدلیات سے خائف ہو کر ماضی کے جاگیرداری نظام کے غیر عقلی رویوں میں پناہ لیتا ہے۔ انتظار حسین جس شجرہ نسب کی بازیابی کا اشارہ کرتے ہیں وہ انسانی اخوت کا یو نیورسل تصور ہے جو انسان کو اس کی معیشت کے ظلم سے رہا کر کے اسے آدرش میں منتقل کر دیتا ہے۔ انتظار حسین کے کرداروں کی مہمات روحانی، تمدنی اور نیم مذہبی ہیں اس لیے وہ معاصر دنیا سے بہت کم علاقہ رکھتے ہیں بلکہ زمانہ حال ان کے لیے آزمائش کی صورت حال ہے ، وہ اس سے گریز کرتے ہیں کہ نئے مادی احوال سے ان کے تضادات نمایاں ہونے کا اندیشہ ہے، انہیں تمدن کی اس امانت کے منتشر ہونے کا احتمال ہے جسے وہ سینوں میں لیے پھرتے ہیں۔
چچا قربان علی بھی اس نوع کا ایک کردار ہے جو جدید عہد کے تغیرات سے اسی طرح نالاں ہے جس طرح نذیر احمد کے حجتہ الاسلام ۔ انہیں ماضی کی قبر میں بھاتی ہیں۔ وہ اس عہد میں اپنے شجرہ نسب کی تلاش میں ہیں جب حجرہ نسب کا تصور موقوف ہو چکا ہے اور وہ اس تصور سے بے خبر ہیں کہ انسانی ضرورت نے انسان کو شئے میں منتقل کر دیا ہے۔ انتظار حسین اور چچا قربان علی دونوں کی مراجعت غیر عقلی ہے دونوں ماضی میں ، اجتماعی لاشعور میں ، اور کسی حد تک ذہنی پس ماندگی میں انسان کے بچپن میں حفاظت محسوس کرتے ہیں۔ با ایں ہمہ انتظار حسین ہندو مسلم تہذیب کو بیک وقت قبول کرتے ہوئے ان کے تاریخی اور سیاسی مضمرات سے گریز کر جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے ” انظار حسین کا نقطہ نظر ڈاکٹر وزیر آغا سے مماثل ہے۔ معاصر زندگی انتظار حسین کے لیے زیادہ دلچسپی کی حامل نہیں ہے۔ انہیں ہر جگہ شور سنائی دیتا ہے اور ان کی اپنی صدا اپنی سماعت تک نہیں پہنچتی ، وہ ایک بدلے ہوئے تمدنی پس منظر میں اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں ان کے کردار اجنبی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ انتظار حسین کے معاصر کردار بھی جدید شعور کے حامل نہیں ہیں، وہ فردوس گم گشتہ کے ناسٹلجیا میں اضطراب کے شب و روز بسر کرتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے مراجعت ممکن نہیں ہے۔ اس لیے انتظار حسین لاشعوری طور پر انسان کی مراجعت کا نیم مذہبی استعارہ تعمیر کرتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن اسے اصل سے واصل ہونا ہے۔ انتظار حسین کے کرداروں کی جذباتی زندگی میں زمانہ حال ایک آزمائش ہے جس سے وہ نبرد آزما ہونے کا حوصلہ نہیں رکھتے کیونکہ اس نے نجی اور اجتماعی زندگیوں میں وہ پیچیدگیاں پیدا کی ہیں جو ان کے افہام، اختیار اور دائرہ کار سے باہر ہیں، چنانچہ وہ اپنے وجود کوئی معنویت سے ہمکنار کرنے کی بجائے اپنا تحفظ پسپائی کے ذریعے کرتے ہیں۔ انتظار حسین کے انسانوں کے ماخذ اور منابع مختلف تہذیبیں ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں ایک فکری
سی پر بھانت بھانہ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو ایک نقط نظر میں مدغم نہیں ہوتیں۔ ان کا زیر نظر مجموعہ ” کچھوے اس تصور کو راسخ کرتا ہے کہ انتظار حسین خود تو سوم دیو جی کے معاصر بن جاتے ہیں لیکن انہیں اپنا ہمعصر نہیں بناتے ” نئے افسانہ نگار کے نام میں انتظار حسین نے اپنی فنی پوزیشن کی بھی صراحت کی ہے، وہ اردو کے نئے افسانہ نگاروں سے کچھ بیزار لگتے ہیں کیونکہ وہ کہانی سے بہت دور نکل گئے ہیں اور انہوں نے کہانی کے عصر کو منہا کر کے ایک سیدھی لکیر بنادی ہے، یہاں انتظار حسین بناوٹ سے کام لیتے ہیں، ان کے افسانے اتنے سیدھے نہیں ہیں، جتنا وہ اس کا چرچا کرتے ہیں۔ انتظار حسین کے افسانوں اس طرح کا اسٹرکچر ملتا ہے:
(1) وہ اساطیر اور قصوں کی مدد سے افسانے میں تخیل کا رنگ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(2) وہ افراد، اشیاء اور واقعات کی مظہریاتی ترتیب کو قبول کرتے ہوئے بھی ان سے وہ معانی تعبیر کرتے ہیں جو عموماً ان سے منسوب نہیں ہوتے۔
(3) وہ کسی ایک تصور جذبہ کو ذہنی عمل کے طور پر بیان کرتے ہوئے افسانے میں کہانی کے روایتی تصور سے گریز کر جاتے ہیں۔ ” کچھوئے“ کے افسانوں کی تعمیر میں یہ تینوں اسلوب دستیاب ہیں، لیکن ان کا غالب رحجان ریلیزم کی طرف ہے اور بیشتر افسانوں میں پس منظر کے طور پر وہی بے اثر میکانکی تفاصیل بیان کرتے ہیں جو حقیقت نگاروں سے یادگار ہیں ۔
نظریاتی ضعف اور تجربے کی تکرار کے باوجود انتظار حسین ایک اعلی درجے کے صناع ہیں ، وہ کہانی بنانا جانتے ہیں، اچھے موڈ میں ہوں تو افسانے کو کثیر المعانی بنانے کے فن سے بھی آشنا کرتے ہیں۔ اعلیٰ تخلیقی لمحات میں وہ بے حد خوبصورت نثر بھی لکھتے ہیں لیکن نہ جانے ان کے شعور کو معاصر زندگی کی آب و ہوا کیوں راس نہیں آتی ؟ شاید وہ خود اپنے ہنر کی قدرو قیمت سے آشنا نہیں ہیں ان میں ایک کبیر افسانہ نگار بننے کے قوی امکانات ہیں۔
انیس ناگی