اندھا دھن

“اندھا دھن”
(منظرِ عام پر نظر 2018 کو آئی. مرکزی کردار نبھانے والے اداکار، ایوشمن کھرانا، تبّو، رادھیکا آپٹے)
فلم بنائی جاتی ہے پیسہ کمانے کے لیے، شہرت حاصل کرنے کے لیے، کسی بھی قسم کا کوئی پیغام پہنچانے کے لیے، معاشرے کو آئینہ دکھانے کے لیے یا پھر اپنی ہی کہانی سنانی کے لیے۔
اس فلم میں آیوشمن کھرانہ کے ساتھ اداکارہ ردھیکا آپٹے اور تبو نے اہم کردار ادا کیا۔

“اندھا دھن” بالی ووڈ کی معیاری ترین فلموں میں سے ایک ہے۔ جس کو کمرشل اور آرٹ دونوں اقسام (کیٹگری) کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی زمن میں اس کا شمار وحدت تاثیر (یعنی کہ جسے دیکھنے کے بعد گھنٹوں ذہن، انسان کی فطرت کی کروٹوں کے بدلاؤ کے بارے میں سوچتا رہے) رکھنے والی بہترین فلم میں کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ جس کی ڈائریکشن، منظر نگاری، منجھی ہوئی اداکاری،کیمرا موومنٹ، کیمرا اینگل، فریمنگ، اور سنگیت سب مکمل دکھائی دیتے ہیں۔
“اندھا دھن” میں آزاد انسان بے بس اور بے بس انسان آزاد ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ نہ صرف مختلف قسم کے مکالمے (ورسٹائل ڈائیلاگ) بلکہ ہر ایک جملہ یہاں تک کہ سنگیت کے بول اور دھنیں بھی با معنی ہے۔ اور آپس میں ایک ربط کے ذریعے جڑی ہوئی ہیں۔

اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ انسان خود کو سنوارنے کے چکر میں کیسے دوسروں کی زندگی بگاڑتا ہے اور ان کا جینا دشوار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی جان بچانے کی غرض سے کسی دوسرے کی جان سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ فلم اپنے ناظرین و سامعین کی چشم و دید کو قید کر لیتی ہے۔ اور پھر پردے پر یہ دکھائی دیتا ہے کہ کس طرح اپنے آپ کو خساروں کی لہروں پر بہہ جانے سے بچانے کے لیے بے رخی، بے رحمی، خود غرضی، حوس پرستی اور لالچ جیسے اوزاروں کی ڈھال بنا کر لہروں کا رخ ہی موڑ دیا جاتا ہے اس سے قطعہ نظر ہو کر کہ کوئی اور، جو کہ لہروں کی تہہ تک پہنچنے والا متلاشی ہے، اچانک ان لہروں کے بدلاؤ سے کسی لہر میں جذب ہو کر بہہ جائے اور قصّہ پارینہ بن جائے تو بہہ جائے۔ اندھا دھن میں “اندھیر، اجالا اور پھر اندھیر” انسانی فطرت کی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان کیا ہے؟ کون ہے؟ اور کیا چاہتا ہے؟۔ کیوں سب کچھ حاصل کر کے بھی وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتا؟۔ کیسے کچھ نہ ہو کر بھی وہ سب کچھ ہے اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ کچھ نہیں ہے؟۔

اس میں دکھایا گیا ہے کہ کائنات کتنی حسین ہے۔ ان گنت ایسے نظارے ہیں جو دیکھنے والوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔ لیکن جن کی آنکھوں میں دیکھنے والا مادہ نہیں ہے یا پھر آنکھیں ہی نہیں ہے۔ دیکھنے کی جو استطاعت یا سقّت وہ لوگ رکھتے ہیں۔ وہ قوّت آنکھوں والوں کے پاس بھی نہیں ہے۔ اور آنکھوں سے دیکھنے والوں کے مقابلے میں وہی تو ہیں جو کائناتی زبان اور آنکھ کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ کیونکہ جسم کی آنکھ سے روح کی آنکھ زیادہ گہری، وسیع و کشادہ اور باریک بیں ہوتی ہے۔

فلم میں ایک طرف مرکزی کردار کو بلکہ بعض جگہوں پر ضمنی کرداروں کو بھی ظالم و جابر دکھایا گیا ہے، تو دوسری طرف وہ سب ایسی ایسی حالت میں دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی لاچاری پر ترس آتا ہے۔ اور ان کے بے بس ہونے میں انسان کی بے بسی کو دیکھ کر آنکھوں سے آنسوں سیلاب کی طرح بِن بلائے بہنا شروع ہو جاتے ہیں جو تھم جانے کا نام بھی نہیں لیتے۔ دل چاہتا ہے کہ کاش ایسا ہو جائے لیکن فلم مرکزی کردار اے کاش (آیوش مان کھرانا) کے کردار کو مضبوط اور دلچسپ بناتے ہوئے اور سامعین کو حیرانی کے چکر میں گھماتے ہوئے اپنی منشا کے مطابق چلتی رہتی ہے۔

“اندھا دھن” کو دیکھتے ہوئے یہ بات بھی پرواز کرتے ہوئے تخیّل کے پروں سے ٹکراتی ہے کہ اگر برائی بڑھ جاتی ہے تو بڑھتی ہوئی برائی کو برا بن کر ختم کرنا اس برائی کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک اور برائی کی شروعات شروع کرنا ہے۔ اور برائی کی تو پہلے ہی کمی نہیں ہے اگر ضرورت ہے تو اچھائی کی۔ جو برائی کے مرتکب کو گھپ اندھیروں سے نکال کر اجالوں میں لے جائے اور اجالوں میں بھٹکنے والوں کی آنکھوں سے پٹّی اتاردے۔

اگرچہ ہدایت کار (ڈائریکٹر) “سری رام راگھوان” نے فلم کے آخر کو ایک نئے آغاز میں تبدیل کرتے ہوئے ناظرین کو حیرانی کے عالم میں چھوڑ کر (سسپنس پیدا کرنے کے لیے) انجام تک پہنچایا ہے۔ لیکن یہ نکتہ بھی واضع کیا ہے کہ ہمیشہ، ہر وقت، ہر پل، ہر گھڑی سنبھل کر رہنے اور غور و خوض کے جام پینے کی ضرورت ہے۔ نہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر قدرتی پٹّی آنکھوں سے ہٹ بھی جائے تو انسان کی آنکھیں اپنی ہی بنائی ہوئی بناوٹی پٹّی کے نیچے آ جاتی ہیں۔ اور قدرت کی نشانیاں انسانی نگاہ سے نظر انداذ ہو جاتی ہیں اور کائناتی زبان انسان کے سامنے چیختی چلاتی رہتی ہے لیکن وہ نہیں سن سکتا۔
“ضرورت ہے تو اس امر کی کہ پیالے میں رکھا تیل بھی نہ گرے اور بندہ سارے باغ کی سیر بھی کر لے(الکیمسٹ)”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×