اپنی دنیا پہ صدیوں سے چھائی ہوئی ظلم اور لوٹ کی سنگدل رات ہے

اپنی دنیا پہ صدیوں سے چھائی ہوئی ظلم اور لوٹ کی سنگدل رات ہے
یہ نہ سمجھو کہ یہ آج کی بات ہے

جب سے دھرتی بنی، جب سے دنیا بسی، ہم یوں ہی زندگی کو ترستے رہے
موت کی آندھیاں گھِر کے چھاتی رہیں، آگ اور خون کے بادل برستے رہے
تم بھی مجبور ہو، ہم بھی مجبور ہیں
کیا کریں یہ بزرگوں کی سوغات ہے

ہم اندھیری گھپاؤں سے نکلے مگر،روشنی اپنے سینوں سے پھوٹی نہیں
ہم نے جنگل تو شہروں میں بدلے مگر ہم سے جنگل کی تہذیب چھوٹی نہیں
اپنی بدنام انسانیت کی قسم
اپنی حیوانیت آج تک ساتھ ہے

ہم نے سقراط کو زہر کی بھینٹ دی، اور عیسیٰ کو سولی کا تحفہ دیا
ہم نے گاندھی کے سینے کو چھلنی کیا، کینیڈی سا جواں خوں میں نہلا دیا
ہر مصیبت جو انساں پر آئی ہے

ہیرو شیما کی جھُلسی زمیں کی قسم، ناگا ساکی کی سلگی فضا کی قسم
جن پہ جنگل کا قانون بھی تھوک دے، ایٹمی دور کے وہ درندے ہیں ہم
اپنی بڑھتی ہوئی نسل خود پھونک دے

ہم تباہی کے رستے پہ اتنا بڑھے، اب تباہی کا رستہ ہی باقی نہیں
خونِ انساں جہاں ساغروں میں بٹے، اس سے آگے وہ محفل وہ ساقی نہیں
اس اندھیرے کی اتنی ہی اوقات ہے
اس سے آگے اُجالوں کی بارات ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×