اچانک
پیل تن پیڑ جب گر گئے
وسوسوں نے بہت سخت یلغار کی
اب کہاں ایسی چھاؤں ملے گی ہمیں
راستہ روک کر بولی کم ہمتی
بے دلی سی مسلط ہوئی ذہن پر
دن پہ چھانے لگی رات کی ماندگی
یونہی بے سمت چلتا رہا میں کہ لو
اگئی سامنے دفعتاً وہ گلی
جس کی دل بستگی کو بہت چاہ تھی
دوسری سمت جس کے نئ راہ تھی
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار