اے شہنشاہِ مرے فقر وراثت تیری

اے شہنشاہِ مرے فقر وراثت تیری
روشنی تیرا نگر عشق ریاست تیری

سیج پھلوں کی ہوا خوف کا بستر تجھ کو
نیند تھی دیکھنے والی شب ہجرت تیری

یوں پلٹ کر کبھی سورج نہیں آتے دیکھا
یعنی خالق کو تھی محبوب عبادت تیری

خاک بھی ہمسر افلاک ہوئی پھرتی ہے
بو ترابی ہوئی جس روز سے نسبت تیری

کمسنی میں جو نبوت کی گواہی دی تھی
آن منتج ہوئی مسجد میں شہادت تیری

باب خیبر کہ تیرے پاؤں کی ٹھوکر پر تھا
سورما دیکھ کے حیراں ہوئے قوت تیری

اک تیری ذاتِ میں یک جاہو ے یہ دونوں تضاد
علم ہے ڈال تیری حلم ہے طاقت تیری

تجھ پہ سجتی ہے شریعت کی عالم برداری
جابہ جا پھیلی ہے خوشبوئے طریقت تیری

دل اگر سو نجف ہے تو تعجب کیسا
میرے آباء کے لہو میں ہے محبت تیری

واجد امیر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *