اے میرے غم
جلتے مہر ، خنک مہتاب کے رنگ سمجھتے ، تار نظر کی گرہیں کھولتے
ریشم بنتے عمر کٹی ہے
اے میرے غم !تیرے بدن کی عریانی کا ، تیری محرومی کا دکھ ہے
صبح دعا میں تیرا قاصد ، تیرا مؤذن سب سے سچا
سب سے زیبا
شام وغا میں خالی لوٹتے ہر رہوار پہ تیری چادر
ہر چادر پر جتنا ہے خونناب ،ترا ہے
حلقہ حلقہ کھلتے طوق پہ تیرے عجز کا اسم اعظم
اے میرے غم !
اے میرے غم ! شہر ناقدراں کے بے افلاک ستارے
آخر شب کی تاگاتا ٹوٹتی ضو میں
تیری محرومی کا دکھ ہے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار