برہنہ
فرنگی جریدوں کے اوراق رنگیں
پہ ہنستی ، لچکتی ، دھڑکتی لکیریں
کٹیلے بدن ، تیغ کی دھار جیسے !
لہورس میں گوندھے ہوئے جسم ، ریشم کے انبار جیسے !
نگہ جن پہ پھسلے ، وہ شانے وہ بانہیں
مرور اٹھانیں ،منور ڈھلانیں
ہر اک نقش میں زیست کی تازگی ہے
ہر اک رنگ سے کھولتی آرزوؤں کی آنچ آرہی ہے !
خطوط برہنہ کے ان آئنوں میں
حسیں پیکروں کے یہ شفاف خاکے
کہ جن کے سجل روپ میں کھیلتی ہیں
وہ خوشیاں ، جو صدیوں سے بوجھل کے اوجھل رہی ہیں!
انھیں پھونک دے گی یہ بے مہر دنیا
فرنگی جریدوں کے اوراق رنگیں
کو اک بار حسرت سے تک لو
پھر ان کو حفاظت سے اپنے دلوں کے مقفل درازوں میں رکھ لو!
مجید امجد