بہتے ہوئے جزیرے
یہ پتیوں پہ بکھرے شبنم کے سبز سیرے
ٹھنڈی ہوا چلن گلشن میں دھیرے دھیرے
یہ نیلگوں فلگ یہ سیال ابر پارے
ٹھرا ہوا سمندر بہتے ہوئے جزیرے
جان نثار اختر
بہتے ہوئے جزیرے
یہ پتیوں پہ بکھرے شبنم کے سبز سیرے
ٹھنڈی ہوا چلن گلشن میں دھیرے دھیرے
یہ نیلگوں فلگ یہ سیال ابر پارے
ٹھرا ہوا سمندر بہتے ہوئے جزیرے
جان نثار اختر
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ