ترے سانچے میں ڈھلتا جا رہا ہوں
تجھے بھی کچھ بدلتا جا رہا ہوں
نہ جانے تجھ کو بھولا ہوں کہ خود کو
بہر صورت سنبھلتا جا رہا ہوں
طبیعت ہے ابھی طفلانہ میری
کھلونوں سے بہلتا جارہا ہوں
حقیقت کو مکمل دیکھنا ہے
نظر کے رخ بدلتا جارہا ہوں
چلا ہے مجھ سے آگے میرا سایہ
سو میں بھی ساتھ چلتا جا رہا ہوں
یہ چاہا تھا کہ پتھر بن کے جی لوں
سو اندر سے پگھلتا جا رہا ہوں
بہت نازاں کو محرومی پہ اپنی
اسی پر ہاتھ ملتا جا رہا ہوں
کسی کا وعدہ فردا نہیں میں
تو کیوں فردا پہ ٹلتا جا رہا ہوں میں
سلیم احمد