تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی۔۔۔۔تحریر فخرالزمان سرحدی۔۔۔پیارے قارئین کرام!یہ دنیا بھی عجب سرائے ہے کہ ہر رنگ میں زندگی کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔کہیں عیش و نشاط کے ساتھ زندگی بسر تو کہیں بھوک اور افلاس کے ہاتھوں پریشان حال لوگ بچوں سمیت موت کو گلے لگانے پر مجبور۔۔وہ تو زندگی کو ایک بوجھ تصور کرتے اس بات کا اظہار کرتے ہیں۔زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے۔۔۔اس جینے کے ہاتھوں ہم تو مر چلے۔کیا ان خوفناک مناظر میں ہم سب شریک نہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے مجبور لوگ اپنے پیاروں کو موت کی دیوی کی نذر کرنے پر مجبور ہیں۔ایسے میں کیا انسان تو موجود ہیں۔۔۔مگر۔۔۔انسانیت کہیں نہیں کے مترادف زندگی کا سفر طے ہو رہا ہے۔ایک شاعر نے بہت خوبصورت بات کہ دی کہ:-کبھی تو آو،کبھی تو بیٹھو، کبھی تو دیکھو،کبھی تو پوچھو ۔۔۔۔تمھاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے۔کلام اقبال کے مطالعہ سے بخوبی زندگی کی اہمیت اور افادیت کا علم ہوتا ہے۔فرماتے ہیں:- تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی۔۔۔۔نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں۔یہ اٹل بات ہے کہ ہماری مشکلیں،پریشانیاں،دکھ،درد،مصائب رب کائنات ہی دور فرماتا ہے۔دنیا میں کسی بھی حوالے سے دوسروں کی محتاجی بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔ہمارا دین تو سراسر محبت،الفت،کا درس دیتا ہے۔اس ضمن میں ہمیں اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں زندگی بسر کرتے ہوئے دوسروں کا احساس کرتے جینا چاہیئے۔زندگی وہی کار آمد ہوتی ہے جس میں دوسروں کی تکالیف اور مصائب کا احساس ہو۔معاشرے میں تمام افراد ہارکے موتیوں کی مانند ہوتے ہیں۔یک اچھا اور مثالی معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں انسانیت کی قدر ہو۔تاریخ کا مطالعہ سے یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ اس کائنات کے محسن اور اللہ تعالی کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاشرے میں انسانی زندگی کی اصلاح کا کام شروع فرمایا تو درد مندوں سے،ضعیفوں سے محبت کا درس بھی دیا۔کیا ہم جدت پسندی کے دور میں اس بات کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ دوسروں کی مدد اور تکالیف میں ان کی مدد کرنا فلاحی کام ہے۔بات صرف اتنی سی ے کہ احساس کو زندہ کیا جائے۔نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا۔۔۔کہ صبح وشام بدلتی ییں ان کی تقدیریں۔عنوان زندگی یہی ہونا چاہیئے کہ دوسروں کے لیئے بھی زندہ رہے۔جھلستی دھوپ میں دوسروں کے لیئے سائبان ہونا بھی عظمت کی دلیل ہے۔غم و الم کی فضا میں دوسروں کی مدد و اعانت سے کام لینا ہے۔معاشروں کا وجود صرف اور صرف ہمدردی اور اخلاص سے قائم رہ سکتا ے۔محبت کی دنیا میں زندہ رہنا ہی اچھا لگتا ہے۔عاجزی ایک ایسا وصف ہے جس کی بدولت آدمی اپنی ذات میں گم رہتا ہے وہ خود پسندی کا شکار بھی نہ ہوں۔ہمارا معاشرہ اسلامی ہے۔اس میں انسانیت کا احترام ہونا چاہئے۔بھوکوں کو کھانا کھلانا ہمارا شیوہ ہونا چاہیئے۔کیونکہ مخلوق خدا کی خدمت میں بہت بڑی عزت اور عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار