تنقید: مفہوم اور اہمیت

تنقید: مفہوم اور اہمیت

تنقید اور شعر و ادب کا آپس میں اتنا گہرا رشتہ ہے کہ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ پہلے ادب وجود میں آتا ہے پھر اسے پرکھنے کے لیے تنقید۔ یوں سمجھ لیجیے کہ پہلے شاعر شعر کہتا ہے، افسانہ نگار افسانہ لکھتا ہے۔ پھر قاری یعنی پڑھنے والا اسے پڑھتا ہے۔ ان پڑھنے والوں میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں کسی فن پارے کو سمجھنے اور سراہنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ غورو فکر کر کے اس کے معنی کو اوروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں۔ ان میں یہ لیاقت بھی ہوتی ہے کہ جو کچھ انھوں نے سمجھا ہے اسے دوسروں کو بھی سمجھا سکیں۔ یہی تنقید نگار کہلاتے ہیں اور شعر و ادب کے فروغ میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ آئیے سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ تنقید ہے کیا۔

تنقید کی تعریف مختصر لفظوں میں یوں کی جاسکتی ہے کہ اچھے اور بُرے میں فرق کرنے کا نام تنقید ہے۔ ہر انسان میں یہ صلاحیت ہوتی ضرور ہے۔ خواہ کم ہویا زیادہ یہ تنقیدی صلاحیت ہی تو تھی جس نے انسان کو ترقی کا راستہ دکھایا اور وہ لمبا سفر طے کر کے اس منزل تک پہنچ گیا جس پر وہ آج نظر آتا ہے۔ اسی صلاحیت کے سہارے اس نے بنجر علاقوں کو نظر انداز کر کے زرخیز علاقوں کو اپنی رہائیش کے لیے چنا۔ محفوظ مقامات کو غیر محفوظ مقامات پر ترجیح دی۔ پتھر کے ہتھیاروں سے دھات کے ہتھیاروں کو بہتر پایا۔ حد یہ ہے کہ بچے میں بھی اچھے اور بُرے میں فرق کرنے کی سمجھ ہوتی ہے۔ اچھے کھلونے کو اٹھا لیتا ہے اور جو کھلونا اچھا نہیں لگتا اسے چھوڑ دیتا ہے۔ خود ہمیں زندگی میں قدم قدم پر اپنے تنقیدی شعور کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بازار میں معمولی سی خریداری کرنی ہو تو اس سمجھ بوجھ کی مدد لینی پڑتی ہے جس کا نام تنقیدی شعور ہے۔

 

جس طرح زندگی کے ہر شعبے میں تنقید کی ضرورت پیش آتی ہے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ادب کے لیے تنقید ضروری ہے۔ ادیب جب ادب تخلیق کرتا ہے تو لا محالہ اس کی مددلیتا ہے۔ مثلا آپ افسانہ نگار ہیں تو قلم اٹھانے سے پہلے سوچیں کس پہ لکھیں کس پر نہ لکھیں۔ جو افسانہ لکھ رہے ہیں
پہلے سوچیں گے کہ جو افسانہ لکھ رہے ہیں اس کا پلاٹ کس طرح بنائیں، کس قسم کے کردار یہاں موزوں رہیں گے۔ زبان کیسی ہونی چاہیے۔ یہ سارے فیصلے تنقیدی شعور کے بغیر نہیں کیے جاسکتے۔

فن پارے کی تیاری کے دوران بھی فن کار کی تنقیدی سوجھ بوجھ برابر کام کرتی رہتی ہے۔ مواد میں بھی وہ اکثر رد و بدل کرتا رہتا ہے۔ ایک ایک لفظ پر مسلسل غور کرتا ہے اور ضرورت محسوس ہو تو ایک لفظ کو دس بار بدلنے کو تیار رہتا ہے۔ بقول حالی شاعر ( اور اسی طرح نثر نگار بھی) ایک ایک لفظ کے لیے ستر ستر کنویں جھانکتا ہے۔ حالی نے یونانی شاعر ورجل کے بارے میں لکھا ہے کہ صبح کو شعر کہہ لینے کے بعد دن بھر ان کی نوک پلک سنوارتا رہتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ جس طرح ریچھنی اپنے بچوں کو چاٹ چاٹ کر خوبصورت بناتی ہے، اسی طرح شاعر بار بار اپنے شعروں کی تراش خراش کرتا ہے۔ ایک عربی شاعر اپنے قصیدے کو سال بھر کی کمائی کہتا تھا کیونکہ وہ سال بھر اسے سنوارتا تھا۔ ولیم بلیک نے اپنی نظموں، شئکسپیر نے اپنے ڈراموں اور ارنسٹ ہیمنگ وے نے اپنے ناول ” بوڑھا اور سمندر” میں بار بار رد و بدل کیا۔ ہمارے ادب میں اقبال نے اپنے شعروں اور عبد الرحمن بجنوری نے اپنی نثر کو سنوارنے میں بے حد محنت کی ہے۔ سچ کہا اقبال نے فن کا معجزہ اسی طرح وجود میں آتا ہے۔ یہ تو تھا تنقید کا وہ عمل جو فن کار سے سروکار رکھتا ہے۔ فن پارہ تیار ہو جاتا ہے تو وہ قاری تک پہنچتا ہے۔ قاری اسے پڑھتا ہے اپنی استعداد کے مطابق اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی خوبیوں اور خامیوں پر غور کرتا ہے اور اس فن پارے کی قدر و قیمت متعین کرنے کی کوشش کرتا ہے مطلب یہ کہ اس فن پارے کا ادب میں کیا درجہ ہے یہ جانے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی قاری ایسا بھی ہوتا ہے جس کا علم عام قاری کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہوتا ہے، جس نے ادب کا زیادہ توجہ سے مطالعہ کر رکھا ہوتا ہے، جسے زبان و بیان پر زیادہ قدرت حاصل ہوتی ہے اور جو دلیلوں کے ساتھ اپنی پسند نا پسند کے اسباب بیان کر سکتا ہے۔ اسی قاری کو تنقید نگار کہا جاتا ہے۔

تنقید نگار مختلف زاویوں سے فن پارے کو دیکھتا اور پر کھتا ہے۔ وہ فن کار کے ذہن میں اترنے کی کوشش کرتا ہے فن کار کے عہد اور ماحول کا جائزہ لیتا ہے۔ فن پارے کے وجود میں آنے کے اسباب پر غور کرتا ہے۔ اس کے فقی محاسن کا پتا لگاتا ہے۔ فن پارے میں اگر کوئی چیز تشریح طلب ہے تو اس کی تشریح کرتا ہے۔ کوئی معمولی ذہن اور کم علم رکھنے والا انسان یہ فرائض انجام نہیں دے سکتا۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ وہی تنقید نگار کامیاب ہوتا ہے جس کے ایک ذہن میں بہت سے ذہنوں کی صلاحیتیں جمع ہو گئی ہوں۔ سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ وہ غیر جانب دار ہو۔ کھلے دل سے فن پارے کو پر کھے اور دو ٹوک راے دے۔

تنقید کی ضرورت ہے یا نہیں۔ اس سے ادب کے فروغ میں مدد ملتی ہے یا اس کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے؟ یہ سوال ایک عرصے سے برابر پوچھا جا رہا ہے۔ اس کی ضرورت کو تو بہتوں نے محسوس کیا ہے لیکن بعض علمائے ادب اسے ادب کے لیے غیر ضروری مضر بلکہ ملک بتاتے رہے ہیں ۔ فلابیر نے تنقید کو ادب کا کوڑھ کہا ٹینی سن نے گیسوے ادب کی جوں بتایا چیخوف نے تنقید کو ایسی مکھی قرار دیا جو گھوڑے کو ہل چلانے سے روکتی ہے ۔ ایمرسن نے کہا کہ جو ادب تخلیق کرنے میں ناکام رہتا ہے وہ دل کی بھڑاس نکالنے کو تنقید نگار بن بیٹھتا ہے۔ ڈرائیڈن تنقید نگاروں کو اس لیے ناپسند کرتے تھے کہ وہ سراپا نفرت ہوتے ہیں۔ تنقید کو غیر ضروری بتانے والوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ تنقید خواہ مخواہ فن پارے اور قاری کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔ تنقید قاری کو اس کا موقع ہی نہیں دیتی کہ وہ اپنے طور پر فن پارے سے لطف اندوز ہو۔

جس تنقید کے خلاف اتنی سخت را ئیں دی گئیں وہ دراصل تنقید نہیں تنقیص ہے، صرف نقص نکالنے کا کام کرتی ہے، صرف کیڑے نکالتی ہے، محض نکتہ چینی کرتی ہے۔

لیکن سنجیدہ اور منصفانہ تنقید ادب کے فروغ میں مدد کرتی ہے۔ ادب کے مشکل حصوں کی شرح کرتی ہے، قارئین میں ادب کا ذوق پیدا کرتی ہے۔ رہبری تنقید کا مقصد تو نہیں لیکن فن کار بهرجال اس سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ رچرڈسن کا ارشاد بجا ہے کہ تنقید نگار ادب کے ساتھ وہ سلوک کرتا ہے جو ڈاکٹر جسم کے ساتھ کرتا ہے۔ ڈاکٹر کے علاوہ اسے مالی سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔ مالی جس طرح چمن کو گھاس پھوس سے پاک کر کے پیڑ پودوں کی نشو و نما کی طرف توجہ کرتا ہے اسی طرح تنقید نگار شعر و ادب کے چمن کی آبیاری کرتا ہے

تنقید نگار کے لیے یہ بہر حال ضروری ہے کہ بغض و عناد سے دور رہے جانب داری سے پر ہیز کرے۔ فن پارے کے مصائب و محاسن دونوں کو اجاگر پرہیز کرے۔ بقول نور الحسن نقوی ضروری ہے کہ اس کا انداز ہمدردانہ ہو ، مطالعہ وسیع ہو ادب کے علاوہ فلسفہ جمالیات، سائنس عمرانیات ، معاشیات، اقتصادیات اور نفسیات جیسے علوم پر حاوی ہو، عالمی ادب کے قدیم وجدید رجحانات سے پوری طرح باخبر ہو نہ روایت کا پرستار ہو نہ اس سے بیزار وسیع نظر اور آفاقی ذہن رکھتا ہو۔ – اس کا طریق کار سائنسی ہو ۔ کسی ادبی وقتی کارنامے سے آگے بڑھ کر فن کار تک اور فن کار سے اس کے عمد و ماحول تک پہنچے ، اس کا تجزیہ کرے۔ ایسا تنقید نگار صحیح معنی میں تنقید نگار کہلانے کا مستحق ہے اور ایسی تنقید کو کسی بڑے سے بڑے تخلیقی کارنامے کے ہمسر قرار دینا عیں انصاف ہے۔

تحریر از ڈاکٹر سنبل نگار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×