تنقید کے دبستان
شعر و ادب کو پرکھنے کے لیے مختلف کسوٹیوں کی ضرورت پڑتی ہے اور مختلف فنکار اپنی اپنی دلچسپی اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان کا استعمال کرتے ہیں۔ کوئی تنقید نگار یہ دیکھتا ہے کہ فن کار نے کن وسائل کا سہارا لے کر اپنی تخلیق کو حسن و دلکشی کا مرقع بنا دیا ۔ یہ جمالیاتی نقاد کہلاتا ہے۔ کوئی یہ غور کرتا ہے کہ فن کار نے کارل مارکس کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر غریبوں ، کسانوں، مزدوروں کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے یا نہیں۔ یہ مارکسی یا ترقی پسند نقاد کہلاتا ہے۔ کوئی مصنف کی نفسیات کو بنیاد بنا کر اس کی تخلیق کا مطالعہ کرتا ہے۔ اسے نفسیاتی نقاد کہا جاتا ہے۔
ادب کی پرکھ تو اسی وقت سائنٹی فک کہلائے گی جب مختلف زاویوں سے اس پر روشنی ڈالی جائے۔ جمالیات، نظریات، نفسیات کسی پہلو کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ لیکن یہ خصوصی مہارت کا زمانہ ہے۔ جو نقاد جس علم کا ماہر ہے اس کی مدد سے ادب کو پر کھتا اور اس کی قدر و قیمت متعین کرتا ہے۔ اس طرح تنقید کے مختلف دبستان وجود میں آئے۔ ان کی فہرست تو بہت لمبی ہے مگر ہمارے نزدیک ان میں سے دو زیادہ اہم ہیں۔ ادب کا جمالیاتی دبستان اور مارکسی یعنی ترقی پسند دبستان۔ اس لیے یہاں ہم صرف ان دونوں کا ہی ذکر کریں گے۔
جمالیاتی تنقید کو بعض لوگ تاثراتی تنقید کے ہم معنی خیال کرتے ہیں لیکن یہ ایک طرح کی غلط فہمی ہے۔ تاثراتی تنقید یک رخی تنقید ہے اور صرف یہ دیکھتی ہے کہ کسی فن پارے نے ہمارے ذہن پر کیا تاثرات پیدا کیے۔ یہ تاثرات اچھے ہیں تو فن پارہ اچھا ہے برے ہیں تو فن پارہ بُرا ہے۔ والٹر پیٹر اور اسینگارن کی راے میں تنقید نگار کا کام صرف اتنا ہے کہ کسی فن پارے سے ذہن پر جو تاثرات پیدا ہوئے انھیں بیان کردے۔ جمالیاتی تنقید بھی تاثرات کو اہمیت دیتی ہے۔ لیکن تاثرات کے سوا بھی اس میں اور بہت کچھ ہوتا ہے جو تاثراتی تنقید میں نہیں ہوتا۔ اس لیے اکثر اہل نظر تاثراتی تنقید کو سرے سے تنقید ہی نہیں مانتے ۔ اسے محض لفاظی تری واہ واہ اور کھو کھلی فقرے بازی ٹھہراتے ہیں جبکہ اس کے بر عکس جمالیاتی تنقید کی بنیاد ٹھوس اصول و ضوابط پر قائم ہے۔
حسن کاری کے وسائل جنھوں نے کسی فن پارے میں ایسی رعنائی و دلکشی پیدا کردی کہ اہل نظر اسے سراہنے لگے ، ان کی تلاش ہی جمالیاتی تنقید کا اصل مقصد ہے۔ اعلا درجے کے شعر و ادب میں ضرور کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جو قاری کو داد و تحسین پر مجبور کر دیتی ہے۔ محمد حسین آزاد کی نثر غالب کے خط پڑھ کر ہم خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔ میر و غالب کے شعر پڑھ کر بے ساختہ ہمارے منہ سے واہ نکل جاتی ہے۔ کبھی کبھی ہم یہ بھی کہہ اٹھتے ہیں ”سبحان اللہ کیا خوب شعر کہا ہے یا واہ کوئی اس پاے کا شعر کہہ کے تو دکھائے۔“ یہ تاثراتی تنقید ہوئی۔ اس کے لیے نہ استعداد کی ضرورت ہے نہ مطالعے کی۔ صرف ذوق سلیم کافی ہے لیکن جمالیاتی نقاد کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ اسے بتانا پڑتا ہے کہ شعر میں حسن کیس طرح پیدا ہوا دلکشی کس راستے سے شعر میں داخل ہوئی۔ یہ راستہ ایک نہیں، بہت سے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی نشان دہی ذیل میں کی جارہی ہے
حسن معنی : مطلب یہ کہ جو بات کہی جارہی ہے اس میں بھی دلکشی ہونی چاہیے۔ یہ خیال درست نہیں کہ حسن صرف بات کہنے کے انداز میں ہوتا ہے۔ جو بات کہی جارہی ہے وہ حسن سے محروم ہو تو حسن بیان تضیح الفاظ ہے۔ والٹر پیر نے ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔۔۔ اچھا ادب اور اعلا ادب اچھا وہ ہے جو صرف حسن صورت رکھتا ہو یعنی اس
کا حسن صرف لفظوں تک محدود ہو ۔ اعلا ادب وہ ہے جو حسن صورت کے ساتھ حسن معنی بھی رکھتا ہو۔ مطلب یہ کہ مواد اور اسلوب دونوں دونوں پر یکساں نظر رکھتی ہے۔ میں حسن پایا جائے۔ یعنی یہ کہ جمالیاتی تنقید موضوع اور انداز بیان دونوں پہ نظر رکھتی ہے
حسن صورت : ضروری ہے کہ حسین خیال کو حسین پیرائے میں پیش کیا جائے۔ اچھی صورت اچھے لباس میں جلوہ گر ہو تو حسن دوبالا
ہو جاتا ہے۔
الفاظ اور ان کی ترتیب : یہ وہ شے ہے جو ادب پارے کو حسن صورت عطا کرتی ہے۔ کولرج کا کہنا ہے کہ الفاظ کی بہترین ترتیب نثر ہے اور بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب شعر لفظ کی اہمیت نثر مین بھی ہے لیکن شعر میں لفظ کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔
.
نغمگی : ہر لفظ کچھ آوازوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ کچھ آوازیں شیریں ہوتی ہیں کچھ کرخت۔ مصنف کو چاہیے کہ لفظوں کو اس طرح ترتیب دے کہ ان سے آہنگ پیدا ہو۔
مصوری : نغمگی کی طرح شاعری کے لیے مصوری بھی ضروری ہے۔ مطلب یہ کہ جب ہم کوئی شعر سنیں یا پڑھیں تو ہماری آنکھوں کے آگے ایک تصویر ابھر آئے۔ اس کو مرقع نگاری ، صورت گری ، امیجری” پیکر تراشی جیسے مختلف نام دیے جاتے ہیں۔
استعاره و تشبیہ : یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن سے شاعر و نثر نگار دونوں تصویر کشی کا کام لیتے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ نثر نگار استعارہ و تشبیہ سے وضاحت کا کام لیتا ہے اور شاعر سجاوٹ کا۔ صورت گیری دونوں کا مدعا ہوتا ہے۔ مثلاً انسانوں کی کثرت کو انسانوں کا جنگل کہا جائے تو انسانی ہجوم پیش نظر ہو جاتا ہے۔
صنائع بدائع : ان وسائل سے شعر میں مزید حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ صنعتیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ لفظی اور معنوی۔ اگر یہ صنعت لفظوں کی ظاہری شکل سے تعلق رکھتی ہے تو اس کا شمار صنائع لفظی میں ہوگا۔ اگر معنی سے تعلق رکھتی ہے تو ضائع معنوی میں۔
جن صنعتوں کا ہمارے ادب میں زیادہ استعمال ہوتا رہا ہے وہ ہیں : تلمیح ،تضاد ، حسن تعلیل ، رعایت لفظی ، لف و نشر مبالغہ وغیره
اردو میں جمالیاتی تنقید کے آغاز و ارتقا کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ روز اول سے ہماری تنقید نے جمالیاتی قدروں کو نظر انداز نہیں کیا۔ ملا وجہی اور ان کے بعد بعض دوسرے شاعروں نے اپنے شعروں میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ شعر میں کیا خوبیاں ہونی چاہئیں۔ لفظوں اور ترکیبوں کے حسن پر ان سب نے زور دیا ہے اور زبان کی سلاست و روانی کو اہم بتایا ہے۔ مشاعرے کی روایت ہمارے ادب میں بہت پرانی ہے۔ مشاعرے میں شعروں پر جو داد دی جاتی ہے اسے مختصر ترین تنقید کہا جاسک ہے۔ واہ وا اور سبحان اللہ کے ساتھ اکثر پسند کا سبب بھی زبان پر آتا رہا ہے۔ نکتہ چینی کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ یہ بھی گواہی دیتی ہیں کہ حسن کاری کے عمل کو سراہا جاتا رہا ہے۔ شعرائے اردو کے تذکروں میں تنقید تو نہیں ملتی لیکن تنقیدی اشارے ضرور ملتے
ہیں۔ یہ اشارے زبان و بیان کے حسن و وقبح کے بارے میں ہیں۔
انگریزوں کے تسلط کے بعد زندگی گے اور شعبوں کی طرح ادب کی دنیا میں بھی انقلاب آیا۔ شعر و ادب کو پر کھنے کے لیے اصول وضع ہوئے۔ سرسید اور حالی اس کام میں پیش پیش تھے۔ ان کا سارا زور ادب کی افادیت و مقصدیت پر تھا مگر اسی زمانے میں شبلی اور محمد حسین آزاد بھی موجود تھے جو ادب میں حسن کاری کے قدر شناس تھے۔ ان کے بعد مہدی افادی نیاز فتح پوری، عبدالرحمن بجنوری، محمد حسن عسکری کی اہمیت کو واضح کیا۔ اس طرح جمالیاتی تنقید کو فروغ ہوا۔ عسکری اثر لکھنوی، فراق گورکھپوری اور چند دیگر اہل نظر نے شعر و ادب میں جن علما بے ادب کا اوپر ذکر ہوا انھوں نے اردو تنقید کی بنیاد رکھی اور اسے استوار کیا۔ اس کے بعد ادب کے جدید دور کا آغاز ہوا۔ اس زمانے میں نئے افق روشن ہوئے۔ مشرق و مغرب کے ادب کا ذوق عام ہوا۔ اہل تم جدید علوم سے روشناس ہوئے۔ نتیجہ یہ کہ تنقید نے ادب کو مختلف زاویوں سے دیکھنا اور پرکھنا سیکھا۔ ان زادیوں میں جمالیاتی تنقید سب سے اہم زاویہ رہا۔ جمالیاتی تنقید کے اصول وضع ہوئے اور اس میں سائنس کی سی قطعیت پیدا ہوئی۔
تمام اہم نقادوں نے تسلیم کیا کہ جمالیاتی پہلو کو نظر میں رکھے بغیر ادب کی صحیح قدر و قیمت کا تعین ممکن نہیں۔ آل احمد سرور نے کہا کہ ادب کو سب سے پہلے ادب کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔ اس سوٹی پر پورا اترنے کے بعد اگر وہ زندگی اور سماج کا خدمت گزار بھی ہے تو یہ اس کی مزید خوبی ہے۔ کلیم الدین احمد نے ترقی پسند ادب کی مخالفت کی تو اس لیے کہ وہاں جمالیاتی قدروں پر توجہ کم ہی رہی۔ احتشام حسین ادب میں مارکسی نظریات کی تلاش کرتے رہے لیکن اس اعتراف پر وہ بھی مجبور ہوئے کہ حسن کاری سے ادب میں جان پڑتی ہے۔ خورشید الاسلام گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی ، محمد حسن، قمر رئیس، عنوان چشتی ، لطف الرحمن ، ابوالکلام قاسمی۔۔ سب اہم نقادوں نے ادب کی پرکھ میں فلسفہ جمال سے
پوری مدد لی ہے۔
جمالیاتی تنقید کے بارے میں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ اسے تاثراتی تنقید سے خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ تاثراتی تنقید صرف تاثرات سے سروکار رکھتی ہے۔ وہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ کسی ادب پارے کے مطالعے سے قاری کے ذہن پر کیا تاثرات قائم ہوئے۔ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ تنقید ہے بلکہ اصلیت تو یہ ہے کہ اسے تنقید کہنا ہی غلط ہے۔ اس کے بر عکس جمالیاتی تنقید کے طے شدہ اصول ہیں اور ان میں
سائنس کی سی قطعیت پائی جاتی ہے۔ یہ ادب کو حسن دفن کی کسوٹی پر اس طرح پر کھتی ہے کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔
مارکسی تنقید کا دبستان ساری دنیا کے ادب پر اس شدت سے اثر انداز ہوا کہ اس معاملے میں کوئی اور دبستان اس کی ہمسری نہیں کر سکتا۔ یہ وہ دبستان تنقید ہے جو کارل مارکس کے نظریات کی روشنی میں ادب کو پرکھتا ہے۔ اشتراکیت کے پر چار کو ادیب کی ذمہ داری خیال کرتا ہے، مزدوروں پر سرمایہ داروں کے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور سماج سے ادب کا گہرا رشتہ جوڑتا ہے۔ ترقی پسند تنقید سے بھی یہی تنقید مراد ہے۔
کارل مارکس انیسویں صدی کے ایک جرمن مفکر تھے۔ ان کی ایک تصنیف ساری دنیا میں ایک زبردست انقلاب کی بنیاد بن گئی۔ اس کتاب کا نام ” سرمایہ” ہے۔ مارکس کہتے ہیں کہ دنیا کے لوگ غریبوں کی غریبی کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کی محنت کی کمائی سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ دولت کی یہ نابرابر تقسیم دنیا کی ساری خرابیوں کی جڑ ہے اور اس کا مٹادینا ضروری ہے۔
ایک اعلان نامہ کارل مارکس نے نے 1867ء میں شایع کیا۔ اس میں ساری دنیا کے مزدوروں کو مخاطب کر کے متحد ہونے اور ظلم کا خاتمہ کردینے کی دعوت دی گئی تھی۔ دنیا کے محنت کشوں نے اس اعلان نامے کا خیر مقدم کیا اور اس کا خاطر خواہ اثر ہوا ۔ روس دنیا کا پہلا ملک تھا جس کے محنت کش لینن کی قیادت میں زار روس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ۱۹۱۷ء میں روسی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔
انقلاب روس دنیا کی تاریخ میں ایک سنگ میل تھا۔ اس نے معاشی نظام کا نقشا بدل دیا۔ روس میں مزدوروں کی جو نئی حکومت قائم ہوئی اس نے اشتراکی نظام کو اپنایا۔ سرمایہ دار خوار اور محنت کش سرافراز ہوئے۔ اس سے مزدوروں کا حوصلہ بلند ہوا۔ اہل قلم کے دلوں میں یہ خیال جاگزیں ہوا کہ مظلوموں کی حمایت ان پر فرض ہے اور یہ اعتماد پیدا ہوا کہ سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد لازمی طور پر
نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ یورپ میں کچھ ہندوستانی نوجوان تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ان نوجوانوں میں سجاد ظہیر ، ملک راج آنند ، محمد دین تاثیر ، جیوتی گھوش خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے مظلوموں کی حمایت کا فیصلہ کیا اور اس انجمن کی بنیاد ڈالی۔ بعد کو ہندوستان میں اس کی شاخیں قائم ہو ئیں۔ پریم چند ، مولوی عبدالحق ، پنڈت جواہر لعل نہرو نے اس مہم کو اپنی سر پرستی سے نوازا اور اس طرح ملک میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔
،
ترقی پسند ناقدین میں اختر حسین راے پوری ، سجاد ظہیر، مجنوں گورکھپوری احتشام حسین ، ممتاز حسین ، سردار جعفری ، محمد حسن سید محمد عقیل اور قمررئیسں ، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اختر حسین رائے پوری کا مشہور مضمون ”ادب اور زندگی مارکسی نظریات کی روشنی میں” ادب کو پر کھنے کی پہلی کوشش تھی۔ اس سے اردو میں ترقی پسند تنقید کا آغاز ہوا۔ اردو کی جدید انقلابی شاعری سجاد ظہیر کا ایک اہم مضمون ہے۔ مجنوں گورکھپوری شروع شروع میں تاثراتی تنقید نگار تھے لیکن ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئے اور مارکسی نقادوں میں شمار ہونے لگے۔ جب تحریک اشتراکیت کا پر چار بن کے رہ گئی تو وہ اس سے بد ظن ہو گئے۔
احتشام حسین کی ترقی پسند تحریک سے وابستگی بہت گہری تھی۔ انھوں نے ال توائف کا مستحکم کیا اور بہت مشقت کے ساتھ اس کی حمایت کرتے رہے۔ ممتاز حسین کا شمار بھی صف اول کے مار کسی نقادوں میں ہوتا ہے۔ وسیع مطالعے کے سبب ان کی نگارشات میں بہت وزن پایا جاتا ہے۔ سردار جعفری شاعر ہونے کے علاوہ نقاد بھی ہیں اور ترقی پسند تحریک کے شدت پسند علم بردار ہیں۔ محمد حسن سید محمد عقیل اور قمر رئیس عہد حاضر کے اہم مارکسی نقاد ہیں۔
ترقی پسند ادب کے مقاصد بہت واضح ہیں اور مار کسی نقاد ان پر بہت زور دیتے رہے ہیں۔ ان مقاصد پر اختصار کے ساتھ یہاں روشنی ڈالی جاتی ہے :
ادیب کو جانب دار ہونا چاہیے۔ مراد یہ کہ اسے مزدوروں اور کسانوں کی حمایت کرنی چاہیے۔
ادب عوام کے لیے ہے۔ عوام عام طور پر کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ادب ایسا ہونا چاہیے جو آسانی سے ان کی سمجھ میں آجائے۔
ادیب کو اشتراکیت یعنی کمیونزم کی کھلے الفاظ میں حمایت کرنی چاہیے۔
ادیب خاموش تماشائی نہیں۔ اسے جدوجہد میں عملی حصہ لینا چاہیے۔
ادب میں مواد انداز بیان سے زیادہ اہم ہے کیونکہ ادب کا اصل مقصد محنت کشوں کو جگانا اور انھیں سرمایہ داروں سے مقابلہ کرنے کے لیے متحد
کرنا ہے۔
ادب مقصد نہیں ذریعہ ہے۔ اسے مفید و کار آمد ہونا چاہیے۔
ادب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
ادب کو اجتماعی امنگوں کا ترجمان ہونا چاہیے۔
شدت پسندی عام طور پر ہر تحریک کا مقدر ہے۔ تحریک کو کامیاب بنانے کے جوش میں اس کے علم بردار انتہا پسندی سے کام لیتے ہیں اور اسے اہل عقیدہ بنالیتے ہیں۔ اس تحریک کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ جن نقادوں نے ادب کو مارکس کے نظریات کی روشنی میں دیکھا اور پر کھا انھوں نے زیادہ تر صرف یہی دیکھا کہ یہ ادب پاره کمیونزم کے پر چار میں کامیاب ہے یا نہیں۔ اس شدت پسندی نے ادب کو ادب نہیں رہنے دیا پروپیگنڈہ بتا دیا ۔
تحریک کا زوال اسی شدت پسندی کا نتیجہ تھا۔ یہ تحریک رفتہ رفتہ اپنی اپیل کھوتی چلی گئی۔ جن نقادوں نے اس تحریک کی سخت مخالفت کی ان میں کلیم الدین احمد سرفہرست ہیں۔ انھیں ترقی پسند نقادوں سے شکایت ہے کہ وہ ادب سے زیادہ اشتراکیت سے واقف ہیں۔ وہ ادب کا مطالعہ نہیں کرتے صرف انہی مصنفوں کو پڑھتے ہیں جو اشتراکیت کا پرچار کرتے ہیں۔ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے آل احمد سرور لکھتے ہیں ” کلیم الدین احمد کا خیال صحیح ہے کہ مار کسی نقاد اشتراکیت کے پر چار کو ادبیت پر ترجیح دیتے ہیں مگر انھوں نے ترقی پسند تنقید کی اس عظیم الشان خدمت سے انکار کیا ہے کہ اس نے جمال حسن اخلاق ابدیت جیسے اصطلاحوں کی پرستش سے آزاد کیا۔ ظاہر پر باطن کو ترجیح دی اور بتایا کہ ادب میں جان انفرادیت سے آتی ہے مگر آزاد مکمل اور شاداب انفرادیت کو سماج کے تعلق زیادہ جنون ملتا ہے۔
فیصلہ کن راے در حقیقت وہی ہے جو سرور صاحب کی مندرجہ بالا عبارت سے ظاہر ہوتی ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی اس تحریک کے مخالفین میں شمار کیے جاتے ہیں مگر ان کی یہ رائے بہت درست ہے کہ :
“ترقی پسند تحریک نے شاعری اور افسانہ نگاری کے علاوہ اردو زبان کے جس شعبے کو سب سے زیادہ متاثر کیا دہ ادبی تنقید ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو کچھ ہے جانہ ہوگا کہ اس تحریک کی بدولت اردو تنقید کو ایک نیا ذہن ایک نیا میزان اور ایک منفرد کردار نصیب ہوا۔”
بے شک اس تحریک کی خوبیاں اس کی خامیوں پر بھاری ہیں۔
تحریر از ڈاکٹر سنبل نگار