جہاں سارا بنا گرچہ برائے سرور عالم
مگر اس میں سے کچھ بھی گھر نہ لائے سرور عالم
نگاہ مصطفی اٹھے رخ قبلہ بدل جائے
رضائے رب ہے یعنی آشنائے سرور عالم
اگر مشکل کھڑی میں فیصلہ مقصود ہوتا تھا
تو سنتے تھے غلاموں کی بھی رائے سرور عالم
میں ان ذروں سے دن مہکاوں اپنی شب کروں روشن
میسر ہو جو مجھ کو خاک پائے سرور عالم
وہ جو نامطمئن تھا اس نے بھی آسودگی پائی
نظام زندگی کچھ ایسا لائے سرور عالم
وہ نعلین مبارک تاج ٹھہری بادشاہوں کی
پناہ بے کساں ٹھہری ردائے سرور عالم
زمانے بھر میں لہرایا پھر یرا ان کی عظمت کا
زمین وآسمان گونجی ثنائے سرور عالم
منور دل کے سب تاریک گوشے کیجیے واجد
درود پاک پڑھ لیجیے برائے سرور عالم
واجد امیر