مولانا الطاف حسین حالی کا شمار اردو ادب کے عناصر خمسہ میں ہوتا ہے ۔ وہ ایک بہترین شاعر اور سوانح نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں تنقید کے بانی ہے ۔ انھوں نے مقدمہ شعر و شاعری لکھ ادب میں تنقید کا باقاعدہ آغاز کیا ۔ یوں تو اس سے قبل کلاسیکی شاعری میں تذکروں کا چلن تھا ۔ انھوں نے ایک ناول مجالس النساء کے نام سے لکھا ہے جس میں خواتین کی تعلیم و تربیت کی بات کی گئ ہے ۔ حالی سر سید تحریک کے اہم ترین رکن تھے ۔ سوانح عمریوں میں انھوں نے حیات سعدی ، یادگار غالب اور حیات جاوید جیسے یادگار چھوڑے ۔
ان کے تینوں اہم ترین سوانحِ عمریوں میں ایک ہی طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے ۔ انھوں نے ان کتابوں کو دو حصوں میں لکھا ہے پہلے حصے میں ان کی زندگیوں کو مفصل بیان کیا ہے دوسرے حصے میں ان کی علمی و ادبی کارناموں کا جائزہ لیا گیا ہے ۔
بلکل اسی طرح یادگار غالب میں حالی نے پہلے حصے غالب کی زندگی کو بیان کیا ہے کی وہ سمرقند سے ہندوستان آئے ان کے والد شاہی فوج میں منصب دار ہوئے اور گولی لگ کر شہد ہوئے ۔ غالب کی شادی کم عمری میں ہوئی ۔ ان کی مزاج میں ظرافت بہت زیادہ تھی ۔ ہر بات سے مزاح کا پہلو نکالتے تھے ۔ گو کہ مرزا غالب کی زندگی میں ادب کے علاؤہ اور کوئی کارنامہ نہ تھا لیکن پھر بھی ان کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ وہ مغلیہ عہد کے آخری دور میں سب سے نمایاں ہستی ہے ۔ والد اور چچا کی وفات کے بعد غالب ہمیشہ فکر معاش میں گرے رہے ۔ انھوں نے بہت زیادہ مسائل کا سامنا کیا ۔ ان کے ہاں سات بچے ہوئے اور سات کے سات فوت ہوئے ۔ اور ان کے بھانجے زین العابدین خان عارف بھی فوت ہوئے جن پہ غالب کا مرثیہ بے حد مشہور ہے ۔
یاد گار غالب پہلے حصے میں غالب کی زندگی پہ کسی حد تک مفصل معلومات مہیہ کر دیا گیا ہے ۔
دوسرے حصے میں غالب کے اردو کلام کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس میں غالب کی نظم و نثر پہ بات کی گئ ہے ۔ غالب کے کلام کا انتخاب اور اس کی شرح بھی دی گئی ہے ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حالی نے آزاد کی آب حیات کے جواب میں یہ کتاب لکھی جس میں ذوق کو اردو کا بڑا شاعر دیکھانے کی کوشش کی گئی تھی ۔