خدائے ناز کی ادراک سے زیادہ تھا
میں چشم خود میں کف خاک سے زیادہ تھا
مجھے تو رشتئہ یک مرگ و تیغ تھا اس سے
جوان روابط فتراک سے زیادہ تھا
مجھے تو منزل لوح و لحد بلاتی تھی
میں کھیلتا دل سفاک سے زیادہ تھا
اسے تلاش بھی ہوتا تو میں نہیں کہتا
کہ میں نہیں بھی تہہ خاک سے زیادہ تھا
اسے ستارہ و طاؤس میں بدل دیتا
مگر وہ خواب بھی چالاک سے زیادہ تھا
خمار گل میں جو تو میں بدن اس کا
گنہ سے تیر تھا۔ کے سے زیادہ تھا
افضال احمد سید
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار