غزل
خوشی وہ آئی ہے کٹیا میں تیرے آنے سے
دفینہ جیسے ہو نکلا غریب خانے سے
مٹھاس گھلتی ہے کانوں میں ‘ سر بکھرتے ہیں
مَدُھر سی لَے میں ‘ مَحبّت کا گیت گانے سے
میں اس لیے بھی نہیں آزماتا یاروں کو
بھرم نہ ٹوٹے کہیں اِن کو آزمانے سے
چمن کی سیر کو جانا تو اک بہانہ ہے
تجھے ہی دیکھنا ہوتا ہے اس بہانے سے
یہ میری فہم و فراست ‘ یہ دھڑکنیں دل کی
رہا نہ کچھ بھی ٹھکانے پہ تیرے آنے سے
تُو ٹال دے نہ کہیں مسکرا کے باتوں میں
” میں ڈر رہا ہوں ، تجھے حالِ دل سنانے سے ”
اُدھیڑے آپ ہیں بخیے لباسِ ہستی کے
گلہ نہیں ہے کوئی بھی ہمیں زمانے سے
شباب بیچ کے طارق ! لُٹا کے نقدِ ہنر
خرید لایا ہوں’ کچھ خواب ‘ مَیں ‘ سہانے سے !
طارق محمود طارق
جی سی یونی ورسٹی لاہور