خیابان چمن۔۔۔۔۔تحریر۔۔۔فخرالزمان سرحدی ہری پور

خیابان چمن۔۔۔۔۔تحریر۔۔۔فخرالزمان سرحدی ہری پور

۔۔پیارے قارئین عنوان کالم اپنی جامعیت اور خوبصورتی کے لحاظ سے اتنا اہم ہے کہ لب کشائی کرنا مجھ جیسے ناچیز انسان کے بس کی بات نہیں لیکن وطن پاک کی محبت اور الفت جان سے بھی عزیز کیونکہ ہم نے اس گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے اسی جذبہ حب الوطنی کی بدولت عنوان بھی خیابان چمن کے نام سے کیا۔تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو ایک افسردہ داستان پڑھنے کو ملتی ہے بقول اقبال ۔۔بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا کے مصداق یہ چمن سجایا گیا۔مسلمانان برصغیر نے اپنے خون آرزو سے عظمت کی داستانیں رقم کی ۔یہ وطن پاک اکابرین کی قربانیوں کا ثمر ہے۔یہ وطن پاک اتفاق و اتحاد کی علامت ہے۔بقول شاعر۔۔۔یہ میرے قائد کی جیتی جاگتی تصویر ہے,حضرت اقبال کے خوابوں کی تعبیر ہے۔اس کی مٹی بہت عمدہ اور زرخیز ہے۔ماضی کتنا المناک تھا یہ افسردہ کہانی ہے جسے انسان پڑھتا ہے تو چشم نم ہوتی ہے اور رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں پر کس قدر ظلم وستم روا رکھے گئے لیکن جذبہ آزادی سے سرشار متوالے سرگرم رہے۔وہ گھبرانے والے نہیں تھے بلکہ ثابت قدمی ان کا شیوہ رہی۔عزم و استقلال سے تحریک چلی ۔اکابرین نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔جب یہ مملکت پاکستان جو خیابان چمن کی خوبصورت تصویر ہے۔چونکہ یہ ایک نظریہ اور خیال کا ترجمان اور عظمت کا نشان ہے۔ہمارا شاندار مستقبل اس کی سالمیت اور استحکام سے وابستہ ہے۔اس کی ترقی سب سے عزیز ترین ہے۔معاشی اور معاشرتی میدان میں ایسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس سے اس کی خوشحالی میں اضافہ ہو۔تعلیم سے ہی اس خیابان چمن کی ترقی ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ قدرتی وسائل تو بےشمار ہیں۔رب کریم نے اسے بہت کچھ دیا ہوا ہے۔زمینیں زرخیزہیں۔جنگلات وسیع ہیں۔دریاؤں کا پانی قدرت کی عطا ہے گویا میرے رب کریم کے فضل وکرم سے سب کچھ میسر ہے۔ضروت اس بات کی ہے کہ آپس میں محبت اور یکجہتی سے رہنا اور امن کی فضا قائم کرنا ہمارے چمن کی رونق میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے۔وہ ملک اور قوم کتنی مظلوم ہوتی ہے جس کی حالت پریشان کن ہو۔دہشت گردی سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے۔چمن کی رونقیں ماند پڑتی ہیں۔اس کا خاتمہ نہایت ضروری ہے۔تعصبات سے معاشرتی زندگی سخت متاثر ہوتی ہے۔نفرتیں اس قدر نقصان دہ کہ معاشرے کا شیرازہ ہی بکھر کر رہ جاتا ہے۔فسادات نسلی ہوں کہ خاندانی امن کی فصل کو جلا کر خاکستر کر دیتے ہیں۔ادب و احترام کے سلسلے قائم رہنے سے خیابان چمن کی خوبصورتی اور دلکشی میں اضافہ ہوتا ہے۔تہذیب وتمدن کو فروغ ملتا ہے۔محبت اور الفت کی فضا سے ریاستی ترقی بہتر رخ اختیار کرتی ہے۔وطن دوستی کے نغمات سے بہار آفرینی جنم لیتی ہے۔مثبت احساسات اور جذبات کے جنم لینے سے ملک وملت کے بسنے والوں میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔اس ضمن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ خیابان چمن کی ترقی میں ہمارا کردار کتنا اہم ہے؟اس سوال کا جواب آپ قارئین کرام مجھ سے بہتر انداز میں پیش کرسکتے ہیں تاہم میری راۓ تو یہی ہے کہ جب آپس میں اتفاق واتحاد ہو تو ترقی کی منزلیں آسان ہو پاتی ہیں۔یہ ہمارا پختہ یقین ہے کہ یہ خیابان چمن قدرت کی سب سے بڑی عطا ہے۔اس کی بنیادوں میں ہمارا لہو ہے۔وطنیت کا جذبہ تو اس قدر اہم کہ اسی سے وفور محبت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔تقاضا محبت بھی تو یہی ہے کہ اس کی سرحدوں کی حفاظت جان ودل سے کی جاۓ۔عوام کو درپیش مسائل کا مناسب حل تلاش کیا جاۓ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے قائم وطن پاک کس قدر اہم ہے؟اس تصور کو اجاگر کیا جاۓ۔غربت,بےروزگاری,اور افلاس کا خاتمہ کیا جاۓ۔اس ضمن میں اتنی سی گذارش ہے کہ معاشی طور پر ملک کو بہتر بنایا جاۓ۔بہتر اقدامات کیے جائیں۔سماجی زندگی کی کیفیت بہتر بنانے پی توجہ دی جاۓ۔سیاسی نظام میں استحکام لایا جاۓ۔امیر اور غریب کی تمیز ختم کی جاۓ۔حالات کی نزاکت یہی ہے کہ خود انحصاری کو اپنایا جاۓ اور غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم کیا جاۓ۔اردو قومی زبان ہے۔اس کو فروغ دیا جاۓ۔مہنگائی ایک ایسا سلگتا مسئلہ ہے جس سے عوام بری طرح متاثر ہے۔اسے ختم کیا جاۓ تاکہ متوسط طبقہ بھی زندہ رہ سکے۔آج غذائی قلت اس قدر پیدا ہونے سے خودکشی کے رجحان میں اضافہ سوالیہ نشان ہے۔ضرورت مندوں کا خیال رکھا جاۓ۔ہمدردی کے جذبہ کو فروغ دیا جاۓ۔کسی درد مند کے کام آ ۔۔یہ احساس اجاگر کیا جاۓ۔ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کو ترجیح دی جاۓ۔یقین محکم,عمل پیہم اور محبت فاتح عالم کو مقصد حیات بنا لیا جاۓ۔آئیں خیابان چمن کی خوبصورتی کو اجاگر کرنے میں کردار ادا کریں۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *