داستان کا فن

داستان کا فن

قصہ کہنا اور قصہ سننا انسان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ یہ اور بات کہ آج کی تیز رفتار زندگی اس کی مہلت ہی نہیں دیتی۔ کسی زمانے میں دن بھر کا تھکا ہارا انسان رات کو دوستوں کے حلقے میں بیٹھتا اور اپنی کہتا دو سروں کی سنتا۔ جسے جو یاد ہو تاوہ سناتا اور کوشش کرنا کہ توجہ کا مرکز بنا رہے ۔قصے سے زیادہ دلچسپ اور کون ہی چیز ہو سکتی تھی۔ اس طرح قصے نے جنم لیا۔ وہ وقت گزر گیا اور رات کی مصروفیتیں بھی پیدا ہو گئیں مگر ایک ایسا طبقہ پھر بھی باقی رہا جسے وقت گزاری کے لیے دلچسپ مشغلوں کی ضرورت تھی۔ بے فکروں کو وقت کاٹنے کے جو شغل سوجھے قصہ ان میں سے ایک تھا۔

اردو کی نشرکی داستانیں” کے مصنف پروفیسر گیان چند نے لکھا ہے کہ چیمبر آف انڈیا کے ایک مضمون نگار کے مطابق قصے وہیں زیادہ ترقی کرتے ہیں جہاں لوگ زیادہ کاہل ہوتے ہیں۔ یونان میں قصے اس وقت لکھے گئے جب وہ روم کے زیر نگیں ہو گیا۔ روم کا افسانوی ادب اس وقت وجود میں آیا جب آمر شہنشاہوں نے فرد کی آزادی سلب کرلی۔ انیسویں صدی کی دلی اور لکھنو میں کاہلی کا قحط نہ تھا۔ “ اس وقت تک قصے کی کوکھ سے داستان جنم لے چکی تھی اور اس کی حیثیت شجاعی رومان کی تھی اور اس میں واقعی انیوں کی ترنگ پوشیدہ تھی۔ بادشاہ” شہزادے ، وزیر امیر نواب سلطنت کے عہدیدار بھی داستان کی زلف گرہ گیر کے اسیر تھے۔ راتوں کو دیر تک داستان سنتے ہیرو کی فتح و کامرانی پر عش عش کرتے۔ ، بادشاہ سلامت شاید یہ تصور کر لیتے کہ ان کا کوئی جانار ان کی سرحدوں کو وسیع کرنے کے لیے بہادری کے جوہر دکھا رہا ہے ۔ سپہ سالار اس ہیرو کی جگہ خیالوں میں خود کو مہمات سر کرتے کھتا ۔ اس طرح خیالوں کی دنیا میں پرواز کرتے کرتے
خواب کی دنیا میں جا پہنچتے۔ عجب نہیں کہ سپنوں میں بھی یہی دل خوش کرنے والے منظر نظر آتے ہوں۔ غرض حقیقت کی سفاک دنیا سے فرار کے بعد داستان ایک اچھی جائے پناہ تھی۔ چنانچہ داستان ترقی کرتی رہی اور اس نے ایک باقاعدہ فن کی حیثیت اختیار کرلی۔

داستان کا فن ان حالات میں نشو نما پارہا تھا جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور آخر کار اس کے خدو خال پوری طرح متعین ہو گئے۔ ایک عرصے تک نثری ادب پر داستان کا تصرف رہا۔ بالآخر یہ طلسم ٹوٹا۔ انسان نے خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں قدم رکھا۔ ان داستانوں کو دیکھ کر وہ کچھ شرمایا بھی کہ انھیں دیکھ کر اسے اپنی غفلت، جہالت اور نادانی کا زمانہ یاد آتا تھا مگر یہ داستان بھی اپنی تاریخ ادب کا ایک ورق تھا اور اس کے اپنے تقاضے تھے جن کی شرح ذیل میں کی جاتی ہے۔

طوالت داستان کی اولین شرط تھی۔ داستان کی ضرورت وقت گزاری کے لیے تھی اور خالی وقت بے حساب تھا۔ داستانیں پڑھی نہیں سنی جاتی تھیں۔ رات کے وقت بادشاہ اور امیر اپنی خواب گاہوں میں اور عام لوگ چوک چورا ہے یا کسی مکان میں دیر رات تک داستان سنتے۔ بادشاہوں اور امیروں کے ہاں معمول تھا کہ داستان گو اس وقت تک سلسلہ بیان جاری رکھتا جب تک سننے والے سو نہ جائیں۔ اگلی رات داستان کی ڈورو میں سے تھام لی جاتی تھی جہاں پچھلی شب توئی تھی۔ اس لیے ضروری ہوا کہ داستان طولانی ہو۔ اس کے لیے سمل سانسخہ یہ استعمال کیا جاتا کہ کہانی میں کہانی جوڑ دی جاتی۔ مشہور ہے کہ کسی بادشاہ نے شرط رکھی تھی کہ میں اس لڑکی سے شادی کروں گا جو کبھی نہ ختم ہونے والا قصہ سنائے ۔ جس رات قصہ ختم اسی رات ملکہ صاحبہ کا کام تمام۔ اس کی داستان ایک ہزار اور ایک راتوں چلتی رہی۔ یوں اس کی جان بچی۔

پلاٹ کا تصور داستان میں کس طرح ممکن ہے جبکہ قصے کو بے جا حد تک طول دیا جاتا تھا اور تل میں تل کی طرح قصے میں قصہ جوڑ کر اسے شیطان کی آنت بنایا جاتا تھا۔ ناول میں بھی ایک سے زیادہ کہانیاں ہو سکتی ہیں مگر ضروری ہے کہ انھیں پوری طرح ایک دوسرے میں پیوست کر دیا جائے۔ امراو جان ادا” میں امیرن اور رام وئی دونوں کے قصے ہیں مگر ایک جان ہو گئے ہیں۔ ” مراۃ العروس میں اکبری اور اصغری دو بہنوں کی کہانیاں ہیں جو الگ الگ لکھی گئیں اور شیر و شکر نہ ہو سکیں۔ ایک دلچسپ ناول کو داغ لگ گیا۔
پلاٹ تو ناول کے ساتھ وجود میں آیا۔ داستان سے پلاٹ کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔ پلاٹ کا ذکر کر کے یہاں یہی بتانا مقصود ہے۔ دراصل تنقید تخلیق کے بعد جنم لیتی ہے۔ تخلیقی نمونوں کو سامنے رکھ کر تنقید کے اصول وضع کیے جاتے ہیں۔ داستان کو ناول کی کسوٹی پر نہیں پر کھا جاسکتا۔ داستان کے اصول الگ وضع کرنے ہوں گے اور ان اصولوں میں پلاٹ کی کوئی جگہ نہیں۔

فوق فطری عناصر داستان کی دوسری خصوصیت ہے۔ ہمارا ہی نہیں بلکہ تمام قدیم عالمی ادب ہو مر کی ایلیڈ اور اوڈیسی فارسٹ کی ڈوائن کا میڈی شکسپیر کے ڈرامے ، ملٹن کی فردوس گم شدہ فردوسی کا شاہنامہ کالی داس کے ڈرامے رامائن مہابھارت فوق فطری عناصر سے پر ہیں۔ یہی زمانے کی ریت رہی
ہے۔

شاعری سے داستان کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ دونوں درد انسانی کا مداوا ہیں۔ دونوں کا اصل مقصد حظ اندوزی، تفنن طبع اور وقت گزاری ہے۔ دونوں کی بنیاد جھوٹ پر ہے۔ دونوں میں تخیل کی کار فرمائی ہے۔ تخیل اور جھوٹ کے اس امتزاج نے فوق فطری عناصر کو جنم دیا۔ انسان کو اصلی زندگی میں جو کچھ میسر نہیں ہوتا اسے وہ خیالوں کی دنیا میں پانے کی کوشش کرتا ہے۔ داستان گونے تخیل کے بل بوتے پر دیو جن پری جادو جادو گرنی جیسی مخلوق کو جنم دیا۔ طلسمی محلات تعمیر کیے۔ کراسم تسخیر ، اسم اعظم ، لوح، نقش سلیمانی ٹوپی، جادو کا عصا جادو کا سرمہ جیسی چیزوں کے سہارے خیر کی قوتوں کو شر کی قوتوں پر فتح پاتے دکھایا۔ یہاں جو کچھ ہے ناقابل یقین ہے جس سے لطف اندوز ہونے کا نسخہ کو لرج کے نزدیک یہ ہے کہ ہم ذرا دیر کو اپنی خوشی سے بے یقینی کو بالائے طاق رکھ دیں۔ اس کو وہ writing suspension of disbelief کا نام دیتے ہیں لیکن جب داستان کے فروغ کا زمانہ تھا تو ہمارے بزرگ ان سب چیزوں کو تسلیم کرتے تھے جنھیں آج عقل مانے سے انکار کرتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ آج سائنس کے زمانے میں بھی ایسی باتوں پر یقین کرنے والے بہت مل جاتے ہیں۔

کردار نگاری کا تصور بھی داستانوں کے زمانے میں آج سے مختلف تھا۔ آج وہ کردار پسند کیے جاتے ہیں جو ہر پہلو سے حقیقی زندگی کے کردار نظر آئیں۔ ان میں وہ خوبیاں اور عیب پائے جائیں جو بچ بچ کے انسانوں میں ہوتے ہیں مگر اس طرح کے کردار داستانوں کے لیے قطعاً ناموزوں تھے۔ وہاں ضرورت تھی ایسے کرداروں کی جن کی انسان پرستش کر سکے ، جن سے بے حد نفرت کرے ، جن سے خوف زدہ ہو جائے یا کم سے کم جنھیں دیکھ کر جن کے کارنامے سُن کر وہ حیرت میں پڑ جائے۔ ہماری داستانوں میں صرف اونچے طبقے کے لوگ یعنی شہزادے اور امیر زادے پیش کیے جاتے ہیں۔ باغ و بہار میں ایک سوداگر زادے کا قصہ ہے باقی تمام داستانوں میں بادشاہوں اور شہزادوں کا ذکر ہے۔ پیشہ ور لوگ جیسے خدمتگار خواجہ سرا چڑی مار مغلانی، مہترانی کٹنی وغیرہ کے کردار براے نام ہیں۔ حاتم طائی
میں ایک بیلیا کچھ دہقان باغ و بہار اور گل بکاولی میں چند لکڑ ہارے۔ اصل کردار اونچے طبقے کے ہیں۔ اونچے طبقے کے کرداروں کی پیش کش بھی ناقص اور یک رخی ہے۔ نیک لوگ شروع سے آخر تک نیک ہیں اور بد سراسر بد – غیبی امداد داستانوں کے کرداروں کو موقع ہی نہیں دیتی کہ ان کی صلاحیتیں بروے کار آئیں۔ خطرہ درپیش ہو تو سلیمانی ٹوپی اوڑھ کر ہیرو دشمن کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے، اژد ہے گھیر لیں تو وہ اپنا عصا زمین میں گاڑ دیتا ہے جو تناور درخت بن جاتا ہے اور ہیرو اس پر چڑھ کے محفوظ ہو جاتا ہے۔ یہاں عمر و عیار کی زنبیل ہے کہ اس کی سمائی کا اندازہ ہی نہیں۔ جال الیاسی کسی گراں ڈیل شے پر پھینک دیا جائے تو وہ سمٹ کر نواسیر کی بن کر اس میں سما جاتی ہے۔ ایسی جڑی بوٹیاں ہیں جنھیں کھا کر انسان طوطا بن جاتا ہے اور پھر دوسری ہوئی کھا کر انسان کے روپ میں لوٹ آتا ہے۔ ایسے مرے ہیں جو سردی گرمی ، بھوک پیاس اور ہر بلا سے محفوظ رکھتے ہیں۔
داستانوں کے کردار انسان ہی نہیں حیوان بھی ہیں اور عجیب و غریب مخلوق بھی۔ یہاں دانا اتو ہیں، دانش مند بندر ہیں ، واعظ طوطے ہیں، نرخ سی مرغ ہے خوفناک اژد ہے ہیں۔ ایسی مخلوق ہے جو نصف انسان اور نصف حیوان مثلاً گھوڑایا مور ہے۔ یہ بھی حسب ضرورت اپنا اپنا پاٹ ادا کرتے ہیں۔

درس اخلاق داستان کا مقصد نہ سہی لیکن تمام داستانوں میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ضرور ہے۔ ہر جگہ حق کی فتح اور باطل کی شکست ہوتی ہے۔ اس میں نیکی کی ترغیب پوشیدہ ہے۔ عموماً داستان کا انجام اچھوں کی کامیابی پر ہوتا ہے۔ خاتمہ بالخیر اسی کو کہتے ہیں۔ آخر میں اکثر دعا کی جاتی ہے کہ “جس طرح انھوں کے دن پھرے اسی طرح ہمارے تمھارے دن بھی پھریں۔ “ اس میں یہ اشارہ پنہاں ہے کہ تم بھی انھوں کی طرح نیکیاں کرو تاکہ ایسا ہی انعام پاؤ ۔

معاشرت کی مرقع کشی ہماری داستانوں کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ پروفیسر گیان چند نے لکھا ہے کہ ان داستانوں سے لکھنو اور دلی کی شاہی تہذیب کی پوری تاریخ مرتب ہو سکتی ہے۔ ہر جنس کی ایسی تفصیل ہے کہ ایک انسائیکلو پیڈیا تیار ہو جائے۔ طرح طرح کے کھانے ملبوسات ، سواری کے جانوروں کی تفصیل شکاری جانوروں کے نام چوروں کے فرقے ملازموں کے درجات کیا ہے جو ان میں موجود نہیں۔
“داستان امیر حمزہ کے بارے میں درست ہی کہا گیا ہے کہ اس سے ساحری اور عیاری خارج کر دیجیے تو صرف لکھنو کی معاشرت بچے گی۔ ”باغ و بہار میں آخری مغل تاجداروں کی شان و شوکت جلوہ گر ہے۔ ”فسانہ عجائب میں اس محمد کا لکھنو از سرنو زندہ ہو گیا ہے۔ طلسم حیرت میں اودھ کے گنواروں اور ٹھگوں کی تصویر کشی لاجواب ہے۔ طلسم ہوش رہا میں چاہ زمرد کے میلے کا تفصیلی بیان ہے۔ بوستان خیال” کی آخری جلد کو معاشرت کا جیتا جاگتا مرقع کہا جاسکتا ہے۔ ہماری داستانیں اور کسی کام کی نہ سہی مگر ہماری معاشرت کی تاریخ ان ضخیم
جلدوں میں محفوظ ہے۔

منظر نگاری کے نقطہ نظر سے بھی یہ داستانیں اردو ادب کا ایک بیش بہا ذخیرہ ہیں۔ داستان کے مصنفوں نے اس طرف خاص توجہ کی ہے اور منظر کشی کا حق ادا کر دیا ہے۔ اس زمانے میں جب ہمارے شعر و ادب پر شہری زندگی کی فضا غالب تھی ان مصنفوں نے ہیرو کی مہم جوئی کے سہارے ریگ زار پہاڑ، دریا، سبزہ زار اس کے علاوہ مختلف موسموں اور مختلف اوقات جیسے صبح و شام سب کی تصویر کشی کا حق ادا کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ شادی بیاہ میلے عرس وغیرہ کے مناظر بھی بہت سلیقے سے پیش کیے ہیں۔

 

داستان سننے سنانے کا فن ہے۔ داستانیں سنانے کی لیے ہی تصنیف کی جاتی تھیں۔ پڑھنے کے لیے جو کتاب لکھی جائے اس کا انداز الگ ہو گا اور کوئی چیز سنانے کے لیے لکھی جائے تو اس کا طرز بیان الگ۔ یہاں ضرورت ہوتی ہے ایسے جملوں کی جنھیں داستان گو مناسب اُتار چڑھاؤ کے ساتھ پیش کرے اور داد پائے۔ مرادفات کی بھی یہاں زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ الفاظ بھی ایسے ہونے چاہئیں جو سنانے والے کی زبان سے ادا ہوں تو ایک سماں بندھ جائے اور داستانوں میں اس کا
اہتمام کیا گیا ہے۔

داستانوں کی ادبی قدر و قیمت بھی کچھ کم نہیں۔ اس زمانے میں ہر ادبی فن کار کا کمال اس میں تھا کہ وہ زبان کے جوہر دکھائے۔ زبان وبیان کے اعتبار سے داستانوں کے دو اسالیب ملتے ہیں۔ ایک سادہ و با محاوره دو سرا ر نگین، مجمع فارسی آمیز – پہلے کی سب سے واضح مثال ”باغ و بہار اور دوسرے کی ”فسانہ عجائب ہے۔ سادہ اسلوب کی دوسری داستانیں آرایش محل، تو تا کہانی، رانی کیتکی کی کہانی، اشک کی امیر حمزہ الف لیلہ کے بعض ترجمے اور بوستان خیال ہیں۔ سب رس نو طرز مرصع ، افسانہ عجائب، سروش سخن اور طلسم حیرت پر تکلف اور مرضع اسلوب میں لکھے گئے قصے ہیں۔ دونوں انداز کے مصنفوں نے اپنے اپنے اسلوب میں کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے اور اردو نثر کے فروغ میں ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا ہے۔

ہماری اہم داستانیں

داستانوں میں لطف و سرور کا ایسا سامان موجود ہے کہ انھیں ہر دور میں بہت مقبولیت حاصل رہی۔ آج داستانوں پر طرح طرح کے اعتراض کیسے جاتے ہیں۔

انسان کی مصروفیت بہت بڑھ گئی ہے اور سائنس کے فروغ نے خلاف عقل واقعات کی ہر توجیہ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے تب بھی ایک ایسا حلقہ موجود ہے جو داستانیں پڑھتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہوتا ہے تاہم اس کے عروج کا زمانہ گزر گیا اور اس زمانے کا تعین کیا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ دو سو سال یعنی اٹھار ہیں اور انیسویں صدی کو محیط ہے۔ اس مدت میں بے شمار داستانیں لکھی ہیں یا دوسری زبانوں سے اردو میں منتقل ہو ئیں۔ رامپور میں داستان کا عروج ہوا تو وہاں اَن گنت داستانیں لکھی گئیں۔ طوالت کے سبب انھیں شائع ہونا نصیب نہیں ہوا۔ رضا لائبریری رام پور میں غیر مطبوعہ داستانوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ محفوظ ہے۔ منشی نول کشور داستانوں کی طرف متوجہ ہوئے تو اشاعت کے لیے بہت سی طبع زاد اور ترجمہ کی ہوئی داستانیں ان کی خدمت میں پیش کی گئیں۔ ہماری
داستانوں کا ایک بڑا ذخیرہ ان کے وارثوں کے پاس اب بھی موجود ہے۔ بهر حال ان داستانوں سے ۔۔ خواہ وہ طبع زاد ہوں یا ترجمہ کی ہوئی ۔۔ اردو نڑ کی نشوونما میں بہت مدد ملی۔ یہاں سب داستانوں کا ذکر تو ممکن نہیں۔ البتہ چند مشہور داستانوں کا مختصر تعارف یہاں پیش کیا جاتا ہے۔

سب رس ملاد جہمی کی تصنیف ہے۔ دعوا تو انھوں نے بڑے طمطراق سے یہی کیا ہے کہ یہ ان کی طبع زاد تصنیف ہے لیکن محققوں نے دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ وجہی نے فتاحی نیشاپوری کے قصے حسن و دل پر سب رس کی بنیاد رکھی ہے۔ ملا وجہی نے یہ کتاب ۱۹۴۵ ہجری مطابق ۳۶-۱۶۳۵ عیسوی میں لکھی۔ اس میں تمثیل کا پیرایہ اختیار کیا گیا ہے۔ اسے سترھویں صدی کی اردو نثر کا شہکار کہنا بجا ہے۔

نو طرز مرضع اٹھارویں صدی کی سب سے اہم اردو داستان ہے جس کے مولف میر محمد عطا حسین خاں تحسین ہیں۔ قیاس ہے کہ یہ داستان ۱۷۷۵ء سے قبل یعنی شجاع الدولہ کے عہد میں مکمل ہوئی۔ تحسین کا بیان ہے کہ جنرل اسمتھ کے ہمراہ وہ کشتی کے ذریعے گنگا کے راستے کلکتہ جارہے تھے۔ ایک رفیق سفر نے وقت کاٹنے کو یہ داستان سنائی۔ تحسین کو خیال آیا کہ اسے اردو میں لکھنا چاہیے۔ ای سفر کے دوران چند ابتدائی صفحات لکھ بھی ڈالے۔ کلکتہ پہنچنے کے بعد ان کا تبادلہ عظیم آباد ہو گیا اور یہ کام ادھورا رہ گیا۔ آخر کار ۱۷۷۵ء سے قبل یہ کتاب
مکمل ہوئی۔ نو طرز مرصع کا اسلوب مصنوعی اور پُر تکلف ہے ، مبالغہ آرائی حد سے زیادہ ہے استعارہ و تشبیہ کا استعمال بکثرت ہے، عربی فارسی الفاظ کی بھر مار ہے۔ فارسی الفاظ کی کثرت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ قصہ فارسی (چہار درویش) سے لیا گیا
ہے۔
سترھویں صدی کی ”سب رس” اور اٹھارویں صدی کی نو طرز مرصع” کے بعد انیسویں صدی کا سورج اس شان سے طلوع ہوتا ہے کہ کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کی بنیاد پڑتی ہے اور اس کی سرپرستی میں اردو نثر کو بہت فروغ حاصل ہوتا ہے۔ داستانوں کی طرف خاص طور پر توجہ کی جاتی ہے۔ دوسری زبانوں کے قصے اردو میں منتقل کرائے جاتے ہیں جن میں سے خاص خاص کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔

داستان امیر حمزہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی اصل عربی ہے یعنی پہلے پہل یہ عربی میں لکھی گئی مگر یہ غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ داستان فارسی میں لکھی گئی۔ امیر حمزہ اور مقبل کے نام البتہ عربی سے مستعار لیے گئے۔ یہاں ایک اور غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ اس میں حضرت امیر حمزہ کی فتوحات کا بیان نہیں بلکہ حمزہ بن عبد اللہ کی مہمات کا ذکر ہے۔ یہ شخص نویں صدی عیسوی کا ہے اور خلیفہ ہارون رشید کے زمانے میں اس نے بہادرانہ کارنامے انجام دیے۔ داستان امیر حمزہ کا دکنی اردو میں بھی ترجمہ ہوا تھا لیکن پہلا قابل ذکر ترجمہ خلیل علی خاں اشک کا ہے۔ وہ دہلی کے رہنے والے تھے لیکن پرورش فیض آباد میں ہوئی۔ کلکتہ آکر فورٹ ولیم کالج میں ملازم ہوئے اور جان گل کرسٹ کی فرمایش پر “داستان امیر حمزہ” کا آسان اردو میں ۱۸۰ء میں ترجمہ کیا۔ اس کے بعد امان علی خاں غالب لکھنوی نے اس داستان کو اردو میں منتقل کیا۔ ان کی زبان اشک سے بہتر ہے لیکن اس کا سبب یہ ہے کہ درمیانی مدت میں اردو نثر نے ترقی کی کئی منزلیں
طے کرلی تھیں۔

الف لیلہ دو سو کے قریب لمبی لمبی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ کہانیاں ہزار راتوں میں اور بعض روایتوں کے مطابق ایک ہزار ایک راتوں میں مکمل ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایران میں ایک بادشاہ تھا وہ جس عورت سے شادی کرتا صبح اسے قتل کرا دیتا۔ آخر اس کا واسطہ ایک ہوشیار عورت سے پڑا۔ اس نے جان بچانے کے لیے بادشاہ کو کہانی سنانی شروع کی جو اس رات کو مکمل نہیں ہوئی۔ خلاف معمول پادشاہ نے صبح کو اسے کہانی کے اشتیاق میں قتل نہیں کرایا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس درمیان اس عورت نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ بادشاہ اس عورت کی فراست سے خوش ہوا اور اس سے محبت کرنے لگا۔ یہ کہانیاں ایران میں ہزار افسانہ ” کے نام سے مقبول ہوئیں۔ یہی کتاب “الف لیلہ” ہے۔

پروفیسر گالاں کو عربی زبان میں الف لیلہ” کا سُراغ ملا۔ انھوں نے ۱۷۰۴ء میں اس کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا۔ بعد کو یہ عقدہ کھلا کہ شاید یہ ہندوستان سے ایران اور وہاں سے ملک عرب پہنچی۔ یہ بات آج کی نہیں، ہزار بارہ سو سال پرانی ہے، پروفیسر گیان چند جین کی تحقیق ہے کہ شاکر علی نے اس کتاب کا فورٹ ولیم کالج کے لیے ترجمہ کیا تھا جسے ۱۸۰۳ء میں طباعت کے لیے درست کیا جارہا تھا لیکن معلوم نہیں کہ یہ شائع ہوا یا نہیں۔ بہر حال اردو میں الف لیلہ” کے متعدد ترجمے ہوئے اور انھیں قبول عام حاصل ہوا۔

آرایش محفل میں حاتم طائی کے ہفت خوان کی داستان ہے جیسے حیدر بخش حیدری نے فورٹ ولیم کالج کے لیے ۱۸۰۱ء میں فارسی سے اردو میں منتقل کیا۔ اس کے بعد بھی اس کتاب کے کئی ترجمے ہوئے اور انھیں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ داخلی شہادتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ داستان بھی ہندوستان میں لکھی گئی اور
یہاں سے ایران پہنچی۔ حاتم طائی ایک تاریخی شخصیت ہے۔ پروفیسر گیان چند جین نے روضتہ الصفا” کے حوالے سے لکھا ہے کہ حاتم نے رسول خدا کی ولادت کے آٹھ سال بعد ۵۷۷ء میں انتقال کیا۔ یہاں اس بات کی وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس داستان میں سات سوالوں کا جو قصہ بیان ہوا ہے وہ محض افسانہ طرازی ہے۔

باغ و بہار فورٹ ولیم کالج کی سب سے مشہور و مقبول کتاب ہے۔ یہ فارسی قصہ چهار درویش کا آسان زبان میں ترجمہ ہے۔ یہ وہی قصہ ہے جسے تحسین اپنی کتاب ” نو طرز مرصع میں پیش کر چکے تھے۔ لیکن زبان بہت پیچیدہ اور نامانوس تھی۔ ڈاکٹر جان گل کرسٹ کی فرمایش پر میرا متن نے اسے بہت آسان بلکہ عام بول چال کی زبان میں لکھا اور ”باغ و بہار“ نام رکھا۔ یہ کتاب ۱۸۰۲ء میں مکمل ہوئی۔

بوستان خیال ایک فارسی داستان ہے جس کے مصنف میر محمد تقی خیال ہیں۔ یہ احمد آباد گجرات کے باشندے تھے۔ کسی نازنین کی زلف گرہ گیر میں اسیر ہوئے اور داستان گوئی کو ملاقات کا وسیلہ بنایا۔ ملازمت کی تلاش میں دہلی آئے۔ یہاں بھی یہ شغل جاری رہا۔ جن دوستوں کو داستان پسند آئی ان کی فرمایش پر اسے سپرد قلم کیا۔ پندرہ جلدوں میں یہ مکمل ہوئی۔ ۱۸۴۰ء میں عالم علی نے اس داستان کو اردو میں منتقل کیا اور ” زبدۃ الخیال“ کے م سے ۴۱۰ صفحات میں سمو دیا ۔ اس کے بعد بوستاں خیال“ کے کئی ترجمے ہوئے۔ سب سے اہم ترجمہ خواجہ امان نے کیا۔ یہ غالب کے بھتیجے تھے۔

فسانہ عجائب ایک نہایت اہم طبع زاد داستان ہے۔ رجب علی بیگ سرور اس کے مصنف ہیں اور اس کتاب کا سال تصنیف ۱۸۲۴ء ہے۔ اس لحاظ سے اس کتاب کا ذکر بوستان خیال“ سے پہلے ہونا چاہیے تھا لیکن فارسی بوستان خیال کو اس لحاظ سے زمانی تقدم حاصل ہے کہ یہ بہت پہلے سے مقبول تھی۔ ”فسانہ عجائب” میرامن کی باغ و بہار کے جواب میں لکھی گئی۔ مصنف نے شعوری طور پر مرضع و پُر تکلف فارسی آمیز زبان استعمال کی ہے اور میر امن کی زبان کو حقارت کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس کتاب کا اسلوب ایک عرصے تک شمالی ہند میں بے حد مقبول رہا۔ سرور نے لکھنوی معاشرت کے مرقعے کتاب میں جابجا پیش کیے ہیں۔ اس کے علاوہ دیباچے میں لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت پر بہت تفصیل سے لکھا ہے۔
اوپر صرف چند داستانوں کا ذکر کیا گیا۔ ان میں سے ہر داستان ہمارے افسانوی ادب کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ بے شمار داستانیں اور بھی ہیں اور ان میں سے بعض نہایت اہم بھی ہیں لیکن طوالت کے خوف سے انھیں قلم انداز کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×