اختر جلالی بنی ھاشم
واقعہ کربلا، 61 ہجری سے قبل اور بعد کے حالات و واقعات سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے، یقیناً سانحۂ کربلا عقل سے کام لینے والوں کے لئے بسیار عبرت سے بھرا پڑا ہے.
میں نے واقعہ کربلا سے لینے والے اسباق میں سے ایک سبق یہ بھی ہے کہ
لوگوں کے ہاں میں ہاں ملاتے جائیں تو ہی لوگ عزت دیتے ہیں، اہمیت دیتے ہیں، روابط برقرار رکھتے ہیں، آنکھوں پہ بیٹھا کر رکھتے ہیں، آنکھوں کا تارا بنا کر رکھتے ہیں، ان کی نظروں میں مقام و مرتبہ ملتا ہے. وہ چاہے جو بھی کرے صحیح یا غلط… بس بہرصورت آپ صحیح، آپ صحیح، میں گردن ہلائیں تو ہی اس لائق سمجھا جاتا ہے کہ مثبت تعلقات قائم رکھا جائے اور جیسے ہی نفی میں سر ہلائیں، غلط کو غلط کہنا شروع کر دیں تو پھر دشمنیاں شروع ہو جاتی ہیں، مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کا آغاز ہوتا ہے.
حضرت امام حسین علیہ السلام نے یہی تو کیا تھا ناں! امام عالی مقام علیہ السلام نے یزید کو ماننے سے انکار کر دیا تھا، اس کے غلط کو غلط کہہ رہے تھے، بس یزید کو یہی پسند نہیں تھا کہ حسینؑ میرے ہر ہاں میں ہاں کیوں نہیں ملاتا؟ یزید چاہتا تھا کہ وہ جو بھی کرے، اسے کسی بھی صورت قبول کیا جائے. اس کے غلط کو کوئی غلط نہ بولے. لیکن امام حسین علیہ السلام، یزید کے سامنے ڈٹ گئے… یزید نے، جو بھی کر سکتا تھا، کیا… لیکن حسینؑ پھر بھی ایک انچ اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے… بالآخر یزید کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور ہمیشہ کے لئے ناکام و نامراد ہوا، نہ صرف یہ بلکہ تاریخ نے یزید سے وہ خطرناک بدلہ لیا کہ نامِ یزید گالی سے بھی بدتر بنا دیا… دنیا یزید کے نام پر تھو تھو کرتی تھکتی نہیں ہے…
عین حال یہی ہمارے معاشرے کا ہے… جیسے ہی آپ کسی کے غلط کو غلط کہنا شروع کر دیتے ہیں، تو آپ کو دبانے کی کوششیں کی جاتی ہیں، آپ کے خلاف خطرناک سازشیں کی جاتی ہیں، دباؤ ڈالا جاتا ہے، ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، آپ کی عزت و وقار کو خراب کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں… طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے… آپ اس نظریے کو زندگی کے ہر پہلو میں لاگو کر سکتے ہیں… معاشرتی زندگی، نجی زندگی، گھریلو زندگی، خاندانی زندگی، رشتے داروں کے ساتھ تعلقات، تجارت و کاروبار، سیاست وغیرہ وغیرہ… بس لوگ چاہتے ہیں کہ ہر معاملے میں وہ جو بھی کرے، بس آپ ان کے ہاں میں ہاں ملاتے جائیں اور کبھی بھی ان کے غلط کو غلط نہ بولیں اور اگر ان کے غلط کو قبول کرنے سے انکار کر دیں، تو آپ کو بدتمیز، بدتہذیب، بےادب، زیادہ غصے والا، نجانے کیا کیا القابات سے نوازا جاتا ہے…
جس کو کربلا حقیقی معنوں میں سمجھ آیا ہو، وہ کبھی بھی، کسی بھی صورت، کسی کے غلط پر چشم پوشی اختیار، کبھی بھی نہیں کرے گا، چاہے اسے لاکھوں کروڑوں رکاوٹوں کا سامنا کرنا ہی کیوں نہ پڑے… وہ باطل کے آگے کبھی بھی نہیں جھکے گا چاہے اسے جان کی بازی ہی لگانا کیوں نہ پڑے… اگر ہمارے معاشرے میں کسی کے غلط کو غلط کہنے کی امام حسین علیہ السلام جیسی ہمت و طاقت ہوتی تو خدا کی قسم معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کبھی بھی نہ ہوتا… مصلحتوں کا شکار ہونا، خوف اور ڈر، ذاتی مفاد پرستی، حوس پرستی، شہوت پرستی، حرص و لالچ، حسد، بغض و کینہ، منافقت، دوغلہ پالیسی، منہ پر کچھ اور پیٹھ پیچھے کچھ اور، دل میں کچھ اور اور زبان پر کچھ اور… یہ سب 61 ہجری کے کوفہ والوں کی خصلتیں تھیں اور ان کا آج بھی ہمارے معاشرے میں راج ہیں. یعنی ہم سب میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ’61 ہجری کا کوفہ والا’ چھپا بیٹھا ہے جو ضرورت پڑنے پر باہر نکل کر آتا ہے…
امام حسین علیہ السلام اور یزید کا معاملہ 61 ہجری سے پہلے بھی چلا آ رہا تھا اور آگے بھی یہ سلسلہ چلتا رہے گا… بس 61 ہجری میں کربلا کے میدان میں امام حسین علیہ السلام نے کھلم کھلا یزید کے خلاف آ کر دنیا کو یہ دکھا دیا تھا کسی کے غلط کو غلط، کیسے کہنا ہے اور اس راستے میں کیا سے کیا مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے… جو بھی قربانی دینا پڑے لیکن پھر بھی کسی کے غلط کو صحیح ہرگز نہیں کہنا ہے… دنیا والوں کو یہی سکھانے کے لئے امام عالی مقام علیہ السلام کو یہ سب کچھ کرنا پڑا…
واقعاً ہم نے حسینؑ ابن علیؑ کو ٹھیک سے سمجھنے میں بسیار کوتاہی کی ہے…
🗓 2 اگست 2023ء