دل کو فزوں چمن کی مٹی سے سرد پایا
گیندے سے میں نے اپنے چہرے کو زرد پایا
حسن وجمال پر ہے زیبا غرور تجھ کو
بے مثل بے نظیر و یکتا و فرد پایا
پارس کا کام سنگ در سے عجب نہیں ہے
اکسیر کو تمہارے کوچے کی گرد پایا
ہر چند حالت دل نا گفتنی تھی لیکن
رو کر کہا کچھ اس سے جو اہل درد پایا
میں بھاگتا ہوں دنیا آ آ کے ہے لپٹتی
آتش مجھی کو اس نے شاید کہ مرد پایا
آتش