دکن میں اُردو :
اُردو ادب کا باقاعدہ آغاز جنوبی ہند یعنی دکن میں ہوا۔ اس سے قبل شمال میں کچھ تحریریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مخصوص سیاسی اور تہذیبی ماحول کے سبب اُردو نے دکن میں باقاعدہ طور پر نہ صرف ایک مستقل زبان کا درجہ حاصل کیا بلکہ مختلف ادبی اصناف کے نمونے بھی دکن ہی میں نظر آتے ہیں۔ اُردو زبان و ادب کو شمالی ہند کے بجائے جنوبی ہند میں جو فروغ حاصل ہوا اس کے اسباب صدیوں پہلے سیاسی اور تاریخی حالات میں تلاش کیے جا سکتے ہیں ۔ سب سے پہلا سبب تو یہ ہے کہ صدیوں سے عرب تاجر دکن کے سمندری ساحلوں پر آتے رہے۔ انھوں نے ثقافتی اور لسانی سطح پر بھی اپنا اثر ڈالا۔ اُردو کے علاوہ جنوبی ہند کی زبانوں میں ایسے کئی الفاظ گھل مل گئے جو بنیادی طور پر عربی سے لئے گئے ہیں۔
دوسرا اہم تاریخی واقعہ علاء الدین خلجی کا دکن پر حملہ تھا خلجی کے غلام سردار ملک کا فور نے ۱۳۰۶ ء میں دیوگری پر حملہ کر کے اسے سلطنت دہلی میں شامل کر لیا۔ اس کے بعد محمد تغلق کے حکم سے راجدھانی کو دولت آباد منتقل کر دیا گیا۔ جب یہ شاہی لشکر دہلی سے دکن پہنچا تو اپنے ساتھ دہلی میں بولی جانے والی زبان یعنی اُردو بھی ان کے ساتھ تھی ۔ سنسکرت، فارسی ، مرہٹی، تیلگو اور مختلف بولیوں کے آپسی ملاپ نے اُردو کو صرف باقاعدہ زبان کی صورت بخشی بلکہ ادبی تخلیقات کے لیے راہ ہموار کر دی۔ اس طرح سر زمین دکن میں اُردو کی جڑیں مضبوط ہوتی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا رواج عام ہو گیا۔ اس نے عوام اور خواص دونوں کے دل جیت لیے۔ دکن میں اُردو کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ہجرت کا عمل بھی ادا کرتا ہے۔
دکن میں بہمنی سلطنت (۷۴۸ ہجری سے ۹۲۲ ہجری، مطابق ۱۳۴۷ء) سے ہی اسے اصل ترقی قطب شاہی حکومت ۹۱۴ ہجری سے ۱۰۹۸ ہجری) اور عادل شاہی حکومت (۸۹۸ ہجری سے ۱۰۹۷ ہجری میں حاصل ہوئی ۔ قطب شاہی خاندان کے حکمراں ادب نواز تھے اور بعض خود بھی شاعر تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ادیب وشاعر ان کے دربار سے وابستہ ہو گئے اور انھوں نے زبان وادب کی اہم خدمات انجام دیں ۔ اُردو کو سب سے پہلے عادل شاہی بادشاہوں نے سرکاری
زبان کا درجہ عطا کیا۔ دکن میں اُردو زبان کی سرکاری سر پرستی سے پہلے صوفیائے کرام نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے دکنی یا ابتدائی اردو کو ذریعہ بنایا۔ کچھ صوفی حضرات شاعر اور موسیقی کا بہت اچھا ذوق رکھتے تھے۔ ان میں بندہ نواز گیسودراز کے علاوہ شاہ میراں جی شمس العشاق ، شیخ جیون، شیخ عین الدین گنج العلم اور شاہ برہان الدین جانم نے اپنی تحریروں سے اُردو زبان و ادب کو
بہت فائدہ پہنچایا۔
صوفیائے کرام کی تحریروں اور تقریروں کا تعلق مذہب سے زیادہ اور ادب سے کم تحت لیکن اُردو زبان کی ابتداء اور ترقی میں ان کی لسانی اور تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں پہلا ادبی کارنامہ ملا وجہی کی کتاب “سب رس” (۱۶۳۰ء) ہے اگر چہ یہ کتاب ” قصہ حسن ودل ” کا نثری ترجمہ ہے۔ وجہی نے جگہ جگہ اپنے تجربات کی روشنی میں پند و نصحیت کی باتیں بھی بیان کی ہیں، اس لیے اُردو کے داستانوی ادب میں لسانی اور ادبی دونوں اعتبار سے اس کی
حیثیت بنیاد کے پتھر کی ہے۔
جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ سب رس” ایک تمثیل ہے۔ اس میں عقل، دل، حسن ، عشق ، نظر، ناز ، ادا، ہمت، ناموس اور رقیب جیسے مجرد (Abstrac۱) خیالات کی تجسیم کر کے انھیں انسانی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ ملا وجہی نے مقفیٰ اور مسبح عبارت آرائی سے کام لیا ہے۔ سب رس” کو دکن میں لکھی جانے والی پہلی نثری داستان بھی کہا جاتا ہے۔ دکن میں مثنوی کو خاصا فروغ ملا۔ بہمنی دور کی سب سے پہلی مثنوی فخر الدین نظامی کی کدم راؤ پدم راؤ ہے جو کے اس دور کی ملی جلی تہذیب اور اس زمانے کی ابتدائی اُردو کا نمونہ ہے۔ دکن میں لکھی جانے والی اہم مثنویوں میں ابن نشاطی کی پھول بن” غواصی کی ” طوطی نامہ ، نصرتی کی علی نامہ، ہاشمی کی “یوسف زلیخا اور سید شاہ اشرف بیابانی کی مثنوی “نوسر بار” کے علاوہ رستمی کی “خاور نامہ” اور صبغتی کے ”قصہ بے نظیر” مقیمی کی ” چندر بدن و مہیار” اور وجہی کی “قطب مشتری” (۱۶۰۹ء) کے نام شامل ہیں ۔ دکن میں اُردو غزل کو بھی خاصی ترقی حاصل ہوئی ۔ جس کا ایک خاص مزاج ہے۔ اس میں مقامی رنگ غالب ہے۔ الفاظ ، ترکیبیں محاورے اور کہاوتیں مقامی رنگ میں ڈوبی
ہوئی ہیں۔ دکن میں اُردو غزل کے شاعروں میں محمد قلی قطب شاہ کی خاص اہمیت ہے۔ عبداللہ قطب شاہ، غواصی، نصرتی حسن شوقی ، ولی اور سراج اور رنگ آبادی کے نام قابل ذکر ہیں۔
قلی قطب شاہ نے دکنی اُردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی۔ اس کی غزل میں ہندوستانی تیوہاروں، موسموں ، رسموں ، پھلوں اور پھولوں کا ذکر شامل ہے۔ وہ نہ صرف شہر حیدرآباد کا بانی تھت بلکہ اس نے غزلوں کو حروف تہجی کے لحاظ سے مرتب کرنے کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ ولی قطب شاہ کو پہلا صاحب دیوان شاعر بھی کہا جاتا
ہے۔ اس کی غزلوں میں عشقیہ جذبات پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً
–
پیا باج پیالا پیا جائے نا
پیا باج یک پل جیا جائے نا
کہے تھے پیا بن جوری کروں
کہا جائے اما کیا جائے نا
قطب شاہ نے دیے مج دوانے کو پند
دوانے کو کج پند دیا جائے نا
محمد قلی قطب شاہ کا نواسہ عبداللہ قطب شاہ، نہ صرف ادب دوست بلکه با کمال شاعر بھی تھا۔ اس کا دیوان چھپ چکا ہے۔
حسن شوقی کی غزلیں مخصوص رنگ و آہنگ اور اپنے ماحول کی ترجمان ہیں۔ جیسے
در بزم ماه رویاں خورشید ہے سریجن
میں شمع ہوں جلوں گی وہ انجمن کہاں ہے
ہرگز نہ ترک کر توں خوباں ہوں عشق بازی
توں قتل آپ کر مجہ جیوں سوں ہوا ہوں ازی
دکن میں اُردو غزل کے سب سے مشہور شاعر ولی محمد
ولی (۱۶۲۸ – ۱۷۰۷ء) تھے ۔ جنہوں نے ولی دکنی کے نام سے شہرت حاصل کی ۔ ولی ۱۷۰۰ء میں دہلی آئے تھے اور دلی میں ان کی اور ان کے کلام کی آمد کے بعد بعد باقاعدہ طور پر وہ اُردو شاعری کی طرف مائل ہو گئے تھے ۔ ولی کے کلام میں دو رنگ ملتے ہیں۔ پہلا کے مقامی ہے جس میں دکنی زبان اور ماحول کا اثر نمایاں ہے۔ دوسرا رنگ ان کے دہلی آنے کے بعد جہاں وہ اپنے مرشد سعد اللہ گلشن سے ملے اور ان کے مشورے پر انھوں نے ماری طر میں شعر کہنا شروع کیا تو ان کی شاعری میں ایک سیا رنگ و آہنگ پیدا ہو گیا ، جس کے بارے میں ان کا یہ دعوئی صحیح ثابت ہوتا ہے.
اے ولی صاحب سخن کی زباں
بزم معنی کی شمع روشن ہے
ولی نے اُردو غزل کو پہلی بار ایک نیا لہجہ ، نیا انداز اور اعتبار دیا اور بعد کے شاعروں کے لیے ایک نئی راہ پیدا کی۔ ولی نے اگر چہ مختلف اضاف سخن میں اپنی صلاحیتوں کا ظہار کیا ہے، لیکن بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر تھے اور منزل کے اصل موضوع یعنی حسن و عشق کو انہوں نے پوری فنکاری کے ساتھ برتا ہے۔ ان کے مطابق
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
ولی اس گوہر کان حیا کی کیا کہوں خوبی
مرے گھر اس طرح آتا جیوں سینے میں راز آئے
آرزو چشمه کوثر نہیں
تشنه ہوں شربت دیدار کا
دل کو گر مرتبہ ہو درپن کا
مفت ہے دیکھنا سری جن کا
اُردو غزل کی تاریخ میں ولی کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ انھوں نے اسے فارسی سانچے میں ڈھالنے کی پہلی کامیاب کوشش کی۔ ان کے مضامین کی بلندی ، زبان کی صفائی اور خیال و جذبے کی رعنائی نے اہل دکن کو ہی نہیں اہلِ دلّی کو بھی چونکایا۔
دکن میں ولی کے بعد دوسرا بڑا نام سید سراج الدین سراج اورنگ آبادی کا ہے۔ وہ ۱۷۱۵ء میں اورنگ آباد میں پیدا ہوئے اور ۱۷۶۳ء میں ان کا انتقال ہوا۔ سراج نے مختلف اضاف میں شعر کہے ہیں لیکن غزل ان کا خاص میدان ہے۔ ان کا کلیات دس ہزار اشعار پر پھیلا ہوا ہے۔ سادگی ، سوز ، دردمندی اور تخیل کی بلندی ان کے کلام کی اہم خصوصیات ہیں۔ ولی دکنی کا اثر بھی ان کے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ مثالیں پیش کی
جاتی ہیں.
خبر تحیر عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی
تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
یار منجھ ہے مہربان صد شکر
ہے مرے غم کا قدرداں صد شکر
اردو کی مختلف ادبی اصناف کا آغاز دکن میں ہی ہوا ۔ ابتدا میں اُردو زبان بھی وہیں پروان چڑھی اس لیے ادبی ،لسانی اور تاریخی ہر اعتبار سے دکنی ادب کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ شمالی ہند میں دکن کے بعد ہی اُردو ادب کو فروغ حاصل ہو سکا۔
.
اُردو اور دکنی -: –
دکنی زبان جدید ہند آریائی خاندان سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ اس کی ابتدا بھی مغربی ہندی ، مرہٹی، اڑیا ، پنجابی ، بنگالی وغیرہ کے ساتھ ساتھ ہوئی ۔ دکنی اُردو، اُردو کی قدیم شکل ہے۔ یہ زبان بہمنی دور حکومت میں پلی بڑھی ، جس کے عروج میں صوفی حضرات کا بڑا دخل ہے، جن میں شاہ عین الدین گنج العلم خواجہ بندہ نواز گیسو دراز اور سید عبداللہ حسینی کے نام خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ شاعری میں فیروز ، خیالی اور نظام کا ذکر اور نمونے ملتے ہیں ۔ بعد میں بہمنی سلطنت – پانچ ریاستوں میں تقسیم ہو گئی۔ ان ریاستوں میں بیجاپور میں عادل شاہی اور گول کنڈا میں قطب شاہی دور حکومت میں اُردو زبان کی خدمات انجام دی گئیں ۔ بیجا پور میں ابراہیم عادل شاہ اور علی عادل شاہ کی سر پرستی میں اُردو پروان چڑھی۔ شاہ میراں جی عشاق ، شاہ برہان الدین جانم اور شاہ امین الدین اعلیٰ نے دینی تبلیغ کے لیے اُردو کا استعمال کیا۔ ساتھ ساتھ نصرتی مقیمی، ابن نشاطی رستمی وغیرہ نے ، شاعری میں اپنا مقام پیدا کیا۔ گولکنڈہ میں ابراہیم قطب شاہ محمد قلی قطب شاہ اور عبد اللہ قطب شاہ نے اُردو کی سر پرستی کا کام انجام دیا ۔ کچھ ایسے افراد کے نام بھی تابل ذکر ہیں جو صوفی بھی تھے اور انھوں نے شاعری میں بھی مقام پیدا کیا جیسے ملا وجہی ، ملا غواصی، احمد اور عبدل وغیرہ ۔ یہ وہ ادیب اور شاعر ہیں جن کا جواب دکنی شعر و ادب میں عرصہ دراز تک پیدا نہ ہو سکا ۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ دکن کے آخری بادشاہ ابوالحسن کی سلطنت کو بھی زوال ہوا اور سلطنت مغلیہ اس پر غالب آگئی۔
دکنی اُردو کی خصوصیات :
دکنی زبان میں تشدید کا استعمال پنجابی اور ہریانی کا مرہون منت معلوم ہوتا ہے۔ اُردو نے درجہ بدرجہ ترقی کے دوران بہت سے ہند آریائی الفاظ کو سہل کر لیا، جب کہ دکنی زبان میں ان کا پرانا انداز ہی باقی رہا۔ جیسے دکن میں ہتی اور سنا جس کا سنورا ہوا روپ اُردو میں ہاتھی اور سونا رائج ہے ۔ دکنی زبان میں ہکار آوازوں کو حذف کر دیا جاتا تھا جیسے کچھ کو کچی مجھے کو مج وغیرہ۔ دکن میں جمع بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ الف اور نون لگا دیا جاتا ہے۔ جیسے گھر سے گھراں بیل سے بیلاں عورت سے عورتاں، رات سے راتاں وغیرہ۔ دکنی میں مونث ناموں کی جمع بنانے کے لیے میں لگادیا جاتا ہے جیسے رات سے راتیں بیل سے بیلیں وغیرہ ۔
فعل امر بنانے کے لئے دکنی زبان میں کھانا ، پینا، دینا ، لینا کو کھا ئیو ، پیئو، دینو لیو استعمال کیا جاتا ہے۔ دکن میں ماضی مطلق بنانے کے لیے مصدر سے نا ہٹا کر یا لگا دیتے ہیں ، جیسے کھولنا کو کھولیا اور بولنا کو بولیا ، دیکھنا کو دیکھیا لکھا جاتا ہے۔ جن لفظوں میں پہلا مصوتہ طویل ہوتا ہے اسے حذف کر کے آدمی کو آدمی آنکھ کو آنکھ ، آسمان کو آسمان بولتے اور لکھتے ہیں ۔ درمیان ختم کر دی جاتی ہے۔ جیسے گھبراہٹ کو
میں آنے والی :
گھبراٹ ٹمٹماہٹ کو ٹمٹماٹ۔
ن کا استعمال شدت سے
ہوتا ہے مثلاً کوکا کوں، سے کاسوں نے کانوں وغیرہ۔
علامت فاعل میں ”نے کا استعمال بعض جگہ حذف ہو جاتا ہے، جیسے خدا نے کہا کے بجائے خدا کہیا۔
اس نے لکھ کے بجائے اس لکھیا۔
عربی طرز کو سادہ کرنے کا استعمال بھی دکنی میں رائج ہے،
جیسے طمع کو طما نفع کو نفا وغیرہ۔ گنتی میں گیارہ بارہ کے بجائے گی گیارا ، بارا یا گیا راں باراں لکھا جاتا ہے ۔ دکنی زبان میں ضمائر کی شکلیں مختلف ہیں جیسے ہم کے لیے ہمن ہم کے لیے ہمن مجھے کے لیے منن استعمال ہوتا ہے۔ او پر پیش کی گئی معلومات کو نظر میں رکھتے ہوئے دکنی زبان
اُردو کی ابتدائی شکل ہونے کا احساس اور اندازہ کراتی ہے۔