راجندر سنگھ بیدی

راجندر سنگھ بیدی

اس رات بیدی صاحب خود بھی جاگتے رہے، دوسروں کو بھی جگائے رکھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ذیادوں، جھنا کے کنارے، حکومت اتر پردیش کے ایک مہمان خانے سے قہقہوں کا شور اند تارہا۔ باقر مہدی ، وارث علوی ساقی فاروقی محمود ہاشمی ، دور دراز کے شہروں سے آئے ہوئے بہت سے ادیب، نقاد، اساتذہ حلقہ جمائے بیٹھے ہوئے تھے۔ بیدی صاحب کی حیثیت وہاں میںمحفل کی تھی۔ ایک لطیفے کے بعد دوسر لطیفہ، ایک قہقہے کے بعد دوسرا قہقہ ۔ ان لطیفوں میں ایسے لطیفے بھی تھے جن کا نشانہ بیدی صاحب کی اپنی ذات تھی۔ دنیا پر بننے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے آپ پر بھی جی کھول کر ہننے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ سنجیدہ حقیقوں کی عکاسی کرنے والا اس رات مستقل ہنس رہا تھا اور ہنسار ہا تھا ، اس حد تک کہ ڈر سا محسوس ہوا۔

بظاہر 1976ء اور 1980ء میں بس چار برس کا فاصلہ ہے ۔ مگر اب جو بیدی صاحب فکشن سیمینار میں شرکت کے لیے آئے تو دنیا ہی بدلی ہوئی دکھائی دی ۔ کیا عمارت عموں نے ڈھائی تھی ! فالج کے اثر سے وہ ٹھیک طرح چل بھی نہیں پارہے تھے ۔ چار برس پہلے داڑھی مونچھ کے بالوں میں سفیدی جھلکتی تھی مگر کم کم ۔ اب کہیں سیاہی کا نشان نہ تھا، سوائے چہرے کے جہاں جھریاں کھینچ آئی تھیں ۔ آنکھوں میں اتھاہ سونا پن میں اور اداسی کسی کا سہارا لیے بیدی صاحب گھٹ گھسٹ کر چلتے ہوئے دکھائی دیے تو دل کو دھر کا سالگا۔ میں دھچکا نے کہا: ” بیدی صاحب سمجھ میں نہیں آتا اس ملاقات پر خوشی کا اظہار کیسے کیا جائے ۔ بیدی صاحب نے پل بھر کے لیے ہونٹ بھیجے پھر رونے لگے ۔ ضبط کا بندھن ایک دم ٹوٹ گیا تھا۔

ان دو ملاقاتوں کے درمیان محض چار برسوں کا عرصہ نہیں ، ایک زمانہ سمٹ آیا تھا۔ بہت طویل اور بہت مختصر ۔ اس احساس کو حلق سے اتار نا مشکل تھا کہ اس عرصے کی دونوں حدوں پر چسپاں چہرے ایک ہی شخص کے ہیں ۔ بیدی صاحب اب اپنی پر چھائیں بھی نہیں رہ گئے تھے۔

جس شام بیدی صاحب کے انتقال کی خبر مشتہر ہوئی ، میں سری نگر میں تھا۔ اگلے روز اقبال انسٹی ٹیوٹ میں سرور صاحب سے ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ اس خبر کے بعد انھوں نے رات کسی خرابی میں بسر کی ہے۔ تعزیتی جلسے میں انھوں نے بیدی کا آخری خط پڑھ کر سنایا، باقر مہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا، کہ بیدی صاحب کے ہاتھوں میں قلم سنبھالنے کی سکت بھی باقی نہیں رہی تھی۔ ان کی رواں ہستھری ، موتیوں کی طرح جڑی تحریر آنکھوں میں گھوم گئی۔ لکھا تھا۔ کینسر اب آنتوں تک پھیل چکا ہے۔”

پچھلی سردیوں میں انور سجاد لا ہور سے آئے تھے ۔ میں را کے ساتھ بمبئی گئے تو اس ارادے سے کہ
بیدی صاحب سے بھی ملنا ہے۔ لوٹ کر بتایا کہ بیدی صاحب نے بستر علالت پر جب یہ سنا کہ ملنے کے لیے کوئی آیا ہے تو حیران ہوئے ۔ مجھ سے ملنے کے لیے؟ مجھ سے ملنے تو اب کوئی نہیں آتا ؟ ” تھائی سی تنہائی تھی اور کیسی گھنی گہری جان لیوا بے بسی۔ اس حال میں باقر مہدی کی رفاقت بیدی کے لیے شاید سب سے بڑا سہارا تھی ۔

دلوں کے موسم اتنی جلدی کیونکر بدل جاتے ہیں ۔ مجھے بیدی صاحب کی تو سب سے بڑی پہچان ہی ان کا غیر معمولی تخلیقی، ذہنی، جذباتی ضبط تھا۔ وہ جو اپنے ہر رو عمل کا اظہار بہت سنجل منجل کر، کم سے کم لفظوں میں کرنے کا عادی تھا۔ دو تین برس کے اندراندر یکسر بکھر گیا

کیسا گھنا درخت تھا جڑ سے اکھڑ گیا

اپنے ساتھ کے افسانہ نگاروں میں بیدی صاحب نے منٹو اور کرشن چندر دونوں سے لمبی عمر پائی۔ مگر دونوں کے مقابلے میں بہت کم لکھا۔ کوئی درجن بھر ڈرامے ، ایک ناولٹ ، چند مضامین اور سو سے بھی کم کہانیاں ۔ بظاہر یہ متاع مختصر ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ بیدی کی تخلیقی سرگرمی کا زمانہ چار دہائیوں سے زیادہ کی مدت پر پھیلا ہوا ہے۔ لیکن بیدی صاحب نے اپنے وجود کی قیمت پر اپنے لفظ و اظہار کو ترجیح دی۔ کم لکھے کو ہمیشہ زیادہ شمار کیا کہ وہ لفظ واظہار کے معاملے میں کسی جذباتی مبالغے اور اصراف کے قائل نہیں تھے ۔ بیشتر لکھنے والوں کے برعکس پیر مر سمجھتے تھے کہ زیادہ کہنے کے لیے زیادہ بولنا ضروری نہیں ہوتا ۔ کفایت بیانی اور خاموشی بھی اظہار کا ہی ایک طریقہ ہے۔ بیدی صاحب کے خیال میں تخلیقی اظہار کا سب سے بڑا مسئلہ گریز تھا۔ “ہمارے شعب آشنا کان گریز کو بجز بیان کا نام دیتے ہیں ۔” لکھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کام و دہن اس چرند کی طرح ہوں جو منہ چلانے میں خوراک کو ریت اور مٹی سے الگ کر سکے ۔ افسانہ لکھنے کے عمل میں بھولنا اور یاد رکھنا، دونوں عمل ایک ساتھ چلتے ہیں جب تک کوئی لکھنے والا اپنے قاری کی ذہانت اور اپنے فن کی طہارت کا تصور نہ رکھتا ہو، اس طرح کی بات کہہ نہیں سکتا ۔ بیدی صاحب اپنی حدوں کا شعور بھی رکھتے تھے ، اور افسانے کی حدود کا بھی ۔ بھی تو وہ لفظ اور بیان کے جبر سے اس درجہ آزاد نظر آتے ہیں ۔ پابندی
کے اس احساس کے بغیر یہ آزادی میسر نہیں آتی ۔
بیدی صاحب کے والد سکھ تھے ، والدہ ہندو برہمن۔ ان کی ذات اور کائنات جو صناعی اور فن کاری کے سنگم پر کھڑی نظر آتی ہے تو اس میں کچھ فیض اس اتفاق کا بھی ہوگا۔ ویسے بھی بیدی صاحب اوپر سے جیسے دکھائی دیتے تھے اندر سے مختلف تھے۔ ہنسوڑ مگر سنجیدہ ۔ بظاہر کھردرے اور سخت مگر مزاجا اتنے ہی نرم اور تراشیدہ۔ ان کے احساس اور وجدان میں بلا کی نفاست اور تازگی تھی۔ انسانی سرشت کی ایسی نبضوں پر ان کی انگلیاں پڑتی تھیں کہ حیرت ہوئی تھی۔ بھولا سے ببل تک ہوئی سے لا جو اور رانو تک، بیدی صاحب نے کیسی کیسی پیچیدہ، اسرار بھری دنیاؤں کا سراغ لگایا، اور کیا کیا بے مثال کردار خلق کیے۔ اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے پاؤں زمین پر تھے مگر ان کی بصیرت اشیا اور اشخاص کے باطن کی خواص ۔ ۔ وہ حقیقت پسند تھے۔ یہ اور بات کہ حقیقت کی پرتیں اور سطحیں ان کے لیے روایتی حقیقت پسندوں کی جیسی نہیں تھیں۔ ان کی آنکھیں دیکھتی ہی نہیں تھیں، سوچتی بھی تھیں ، اسی لیے بیدی صاحب اپنے عہد کے شور میں گم نہیں ہوتے ۔ انھوں نے جو کچھ بھی کہا معظم لہجے میں کہا۔ وارث علوی کا یہ خیال کہ بیدی کی زبان ایک سرکش گھوڑے کی طرح ہے جسے وہ ہر آن قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ، بہت صحیح ہے۔ بیدی صاحب پر زبان اور اسلوب کا بہاؤ کبھی غالب نظر نہیں آتا۔ وہ ہزار جہتوں سے اس بہاؤ پر روک لگاتے ہیں اور اسے زیرنگیں رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیدی صاحب نے اجتماعی اور مانوس تجربوں میں بھی ایک نجی اور نامانوس جہت دریافت کی۔ جس نظر سے انھوں نے زندگی اور زمانے کو دیکھا وہ ان کی اپنی ہے۔ اسی لیے تو جو زندگی اور زمانہ بیدی صاحب کی گرفت میں آیادہ بھی انھی کا ہو کر رہ گیا۔ افسوس کہ وہ شخص جس کی گرفت تجربے میں آنے والی ہر جائی پراتنی محکم اور مضبوط تھی جس کا تخلیقی
احساس اس قدر مرتب اور مربوط تھا، بکھرا تو ایسا کہ اپنے آپ کو سمیٹنے کی ہمت بھی ہار بیٹھا۔
،
(دسمبر 1984ء)

تحریر از شمیم حنفی (ہم نفسوں کے درمیان)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×