رتن ناتھ سرشار کی ناول نگاری

رتن ناتھ سرشار

اردو ناول کے فروغ میں رتن ناتھ سرشار کا یہ کارنامہ ناقابل فراموش ہے کہ ان کی تخلیقات – فسانہ آزاد ، جام سرشار اور سیر کہسار نے ایسی شہرت پائی اور انھیں ایسا قبول عام حاصل ہوا کہ مولانا عبد الحلیم شرر سجاد حسین اور مرزا محمد ہادی رسوا جیسے اہل قلم ناول نگاری کی طرف متوجہ ہوئے اور اردو میں اس نثری صنف کی بنیاد محکم ہوگئی۔ سرشار ایک تعلیم یافتہ کشمیری پنڈت تھے۔ اردو فارسی کے علاوہ انگریزی زبان و ادب سے بھی واقف تھے۔ مدرسی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا اور ترجمے کی مشق بھی بہم پہنچائی تھی۔ تصنیفی زندگی کا آغاز اودھ اخبار کی ادارت سے کیا۔ ”فسانہ آزاد “اسی اخبار میں قسط وار شائع ہوا۔ یہ اتنا پسند کیا گیا کہ شائقین کو اگلی قسط کا انتظار رہتا تھا۔ اس سے حوصلہ بڑھا اور انھوں نے بہت سے ناول تخلیق کیے۔ ان میں جام سرشار سیر کہار ، پی کہاں ، کڑم دھرم ، طوفان بے تمیزی ، چنچل نار اور کامنی نے بہت شہرت پائی۔ ”فسانہ آزاد“ اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ سب سے زیادہ مقبول ہوا۔ جام سرشار ” کی خصوصیت یہ ہے کہ فنی نقطہ نظر سے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ان دونوں ناولوں کا اختصار کے
ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔ فسانہ آزاد اودھ اخبار میں قسط وار شائع ہوا ۔ ہر قسط میں دلچسپی کا ایسا سامان ہوتا تھا کہ قارئین اسے بہت شوق سے پڑھتے تھے اور اسی وقت سے اگلی قسط کا انتظار شروع ہو جاتا تھا۔ سرشار ایک لا ابالی انسان واقع ہوئے تھے اور ہر وقت عالم سرور لااُبالی میں رہتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ اخبار چھپنے کا وقت سر پر آپہنچا اور ”فسانہ آزاد کی اگلی قسط کا انتظار ہے۔ آخر کار سرشار کو تلاش کر کے کشاں کشاں دفتر میں لایا جاتا۔ یہ اسی عالم سرور میں ایک قسط قلم برداشتہ لکھ ڈالتے بلکہ اکثر تو کاتب کو براہ راست املا کر ا دیتے۔

سرشار ایسی بے پناہ تخلیقی صلاحیت کے مالک تھے کہ انھوں نے ہاتھ روک کے لکھا ہوتا یا نظر ثانی کی زحمت گوارا کی ہوتی تو اردو ناول میں آج ان کا جو مرتبہ ہے اس سے کہیں زیادہ بلند ہوتا۔ وہ ایک فطری اور پیدائشی فن کار تھے ۔ زبان پر انھیں حاکمانہ قدرت حاصل تھی۔ علاوہ ازیں ناول کی روایت سے وہ بخوبی واقف تھے۔ رچرڈسن ، فیلڈنگ ، اسکاٹ ، ڈکنس اور تھیکرے کی تخلیقات کے علاوہ ڈان کوئی زا الف لیلہ ، انوار کمیلی، داستان امیر حمزہ ، گل بکاولی ، مراۃ العروس ، بنات النعش ، را ماین ، مہابھارت، قصہ تل دمن ایک عرصے تک ان کے زیر مطالعہ رہی تھیں۔ نتیجہ یہ کہ ناول نگاری کا فن ان کے خون میں رچ بس گیا تھا۔
“فسانہ آزاد“ کے لیے سرشار نے ایسا موضوع انتخاب کیا جس میں سیر پائے ، انہی دل لگی کردار نگاری، مختلف انداز کی بات چیت۔ غرض طرح طرح کے ہنر دکھانے اور قارئین کی توجہ کو گرفت میں لینے کے مواقع میسر آسکتے تھے۔ آزاد ایک سیلانی آدمی ہیں۔ حسن آرا کو دیکھتے ہی اس پر جی جان سے فدا ہو جاتے ہیں۔ اس کی فرمایش پر جنگ روم و روس میں حصہ لیتے ہیں۔ وہاں اپنی شجاعت و جواں مردی کا مظاہرہ کرنے کے بعد کامیاب و کامراں لوٹتے ہیں اور اپنے دل کی مراد پاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ حسن آرا سے شادی ہو جاتی ہے۔ یہ چھوٹا سا قصہ ہے جسے طول دے کر اتنے صفحات پر پھیلایا گیا ہے۔ لیکن واقعات اور طرز تحریر دونوں میں ایسی دلکشی پائی جاتی ہے کہ طوالت تاگو از نہیں گزرتی۔

جامِ سرشار : کو فی نقطۂ نظر سے ایک مکمل ناول کہا جا سکتا ہے۔ یہ بھی اودھ اخبار میں قسط وار شایع ہوا لیکن بعد کو مصنف نے پنڈت مادھو پر شاد ڈپٹی کلکٹر کے تعاون سے اس پر نظر ثانی کی۔ جو واقعات غیر ضروری معلوم ہوئے انھیں خارج کر دیا گیا ۔ اس طرح پلاٹ مربوط ہو گیا ، ناول کے مختلف حصوں میں تناسب و پلاٹ ڈھیلے ڈھالے ہیں۔ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ناول قسط وار چھپے۔ اگلی قسط لکھتے وقت پچھلی قسط ان کے ذہن میں ہوتی تھی۔ یہ نہیں کہ اسے سامنے رکھ کر غور کرتے۔ پھر آگے قدم بڑھاتے ۔ ان کی ساری تحریر میں قلم برداشتہ ہوتی تھیں اور بالعموم نظر ثانی سے محروم رہتی تھیں۔ طوالت بھی پلاٹ کو نقصان پہنچاتی تھی اور داستان کا سا انداز پیدا ہو جاتا تھا۔

کردار نگاری کا سرشار کو بڑا سلیقہ ہے۔ انھوں نے خوجی، آزاد حسن آرا اللہ رکھی، قمرن، نازو ظہوران جیسے زندہ جاوید کردار اردو ناول کو عطا کیے۔ بقول علی عباس حسینی وہ ہر طبقے ہر قوم ، ہر ملت و مذہب اور ہر پیشے کے آدمی سے واقف دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں مسجد کے ملا بھی ہیں اور مسجد عصر بھی ، نجومی و رمال بھی، پنڈت بھی، حکیم اور ڈاکٹر بھی، بیوقوف بننے والے نواب اور ان کو لوٹنے والے مصاحب بھی پتنگ باز افیونی، چانڈو باز غنڈے بدمعاش، نیک و بد ، نائی، حلوائی ، سیٹھ بزاز ۔ ہر طرح کے لوگ ان کے ناولوں میں موجود ہیں۔ عورتوں کو دیکھیے تو وہ گھر کی چار دیواری میں قید رہنے والی عورتوں کو بھی خوب پہچانتے ہیں اور گھر سے باہر رنڈیوں کسبیوں ، بھٹیارنوں وغیرہ کو بھی۔ آزاد نئی روشنی کے ہم جو آدمی ہیں۔ خوجی ان کی ضد ہیں مگر ہیں بہت خوب ان کا نام آیا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ کیکڑے کا بدن اور مچھر کا دل پایا ہے مگر بات بات پر گیدڑ بھیکیوں سے کام لیتے ہیں۔ جاگید یے نہ ہوئی میری قرولی ورنہ ابھی بھونک دیتا۔ “ پیٹتے بھی جاتے ہیں اور اکڑتے بھی جاتے ہیں۔ کسی عورت نے ان کے بونے قد پر نظر ڈال لی تو یقین ہو گیا کہ ضرور مرمٹی ہے ۔ مگر ایک بات ہے جس سے دوستی کی نہاری آزاد سے ان کا تعلق مخلصانہ ہے۔ جام سرشار کے نواب امین الدین حید ر بے حد معمولی شکل کے آدمی ہیں مگر یہودنوں کے حسن و جمال کا ذکر سن کر انھیں اپنے حسن کی شان میں گستاخی کاحساس ہوتا ہے۔

 

عریانی جس نے سرشار کے ناولوں کو بعض جگہ ایسا بنادیا ہے کہ اکثر سنجیدہ مزاج لوگوں کے پیشانیوں پر شکنیں پڑ جاتی ہیں ، ان کی حد سے بڑھی ہوئی ظرافت کا ہی نتیجہ ہے۔ ظرافت سے آگے بڑھ کر وہ ہنسی ٹھٹھول اور پھکڑ پن پر اتر آتے ہیں۔ پنڈت بشن نرائن در کا ارشاد ہے کہ سرشار کی اکثر تصانیف اتنی عریاں ہیں کہ وہ لڑکیوں کو نہیں پڑھائی جاسکتیں۔ اکثر جگہ وہ فحش نگاری کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں اور بدی کو سراہنا تو ان کے لیے عام بات ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ زندگی کی حقیقتوں کی اصلی اور بچی تصویر کھینچتے ہیں جو اکثر نا قابل برداشت ہو جاتی ہے۔ اس میں فن کار کا کیا قصور ہے۔

تہذیب و معاشرت کی مرقع کشی سرشار کے ناولوں کا خاص وصف ہے۔ ان کے اجداد کا وطن تو کشمیر تھا لیکن ان کی ولادت لکھنو میں ہوئی۔ یہیں پلے بڑھے۔ یہاں کی تہذیب اور یہاں کے رہن سہن کو بچپن سے دیکھا۔ اس متاع عزیز کو وہ اپنے سینے سے جدا نہ کر سکے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں جابجا لکھنو کی زندگی کی اصلی اور سچی تصویریں پیش کر دی ہیں۔ لکھنو اور اس کی تہذیب و معاشرت کی مرقع کشی سرشار کو اردو ناول نگاروں میں ممتاز کرتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×