رشید احمد صدیقی اور گنجہائے گرانمایہ
رشیداحمد کا اردو ادب میں مقام
فرحت، پطرس اور رشید احمد صدیقی تینوں ہی الگ الگ مزاج ، الگ الگ طریق کار انگ الگ ماحول اور اسلوب کے مالک اور ترجمان مضمون نگار ہیں۔
رشید احمد صدیقی اس لیے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کہ وہ بڑی پرانی ادبی ، زوقی روایت سے والبستہ ہیں اور وہ ادبی ذوقی روایت علی گڑھ کی تعلیمی اور ذوقی روایت ہے ۔ رشید احمد کے مضامین میں اپنے زمانے کے حالات و واقعات اور شخصیات کا بڑا اثر ہے بڑا ردعمل اور انعکاس پایا جاتا ہے رشید احمد شخصیات کے اعتبار سے پنے زمانے کے بڑے بڑے لوگوں کے تاثر قبول کرنے اور زمانے کے اعتبار سے اپنے زمانے
کے واقعات سے گہرا اثر قبول نہیں بلکہ اس تاثر کرنے والے ہیں اور وہ صرف تماشائی نہیں بلکہ اس تاثر کو اپنے ادب میں
ڈھالنے والے شخص ہیں ۔ عملی نہیں تو ذہنی طور پر ان سب تحریکوں اور اشخاص سے وابستہ ہیں جو ان کے مضامین کے قسم قسم کے موضوع ہیں۔ ان کے مضامین کی ایک صورت گنجہائے گرانمایہ ، مضامین
رشید ، ایک صورت خنداں ہے ۔
انہوں نے مختلف لوگوں سے طرح طرح کے تاثرات لیے ہم بالاآخر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ فرحت زمانہ ماضی کے آدمی تھے ۔ پطرس زمانے اور کسی مقام کے پابند تھے اور رشید احمد زمانے اور اصول کے آدمی تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے زمانے اپنے ماحول کی اچھائیوں کو اچھالا ہے اور اس کی کمزوریوں پر چوٹ کی ہے۔ اس اعتبار سے رشید احد کی اہمیت ان دوسرے ادیبوں سے کم نہیں۔ کسی ایک پہلو سے تو کہیئے مگر مجموعی حیثیت سے ان کا بڑا مقام ہے کہ انہوں نے مردہ چیزوں اور بالکل عمومی چیزوں کو مد نظر رکھنے کی بجائے وقت کے اہم مسائل اور اہم شخصیات کو مد نظر رکھا ہے اور ادبی رنگ میں ایک ریویو ، چالیس سال کا تاثر تمہارے سامنے پیش کر دیا ہے ۔
بعض لوگ اس کو عیب کہتے ہیں، مگر ایک اعتبار سے یہ خصوصیت ہے کہ وہ BURNING
OF THE TIME
زمانے کے انعکا سات کو اپنے مضامین میں جگہ دیتے ہیں ۔اس لیے فرحت اور پطرس سے ان کا رتبہ بھی کم نہیں ہے ۔
اب رشید احمد صدیقی کے مضامین بامراج کی دو چار خصوصیات ملاحظہ ہوں
رشید احمد کے مضامین کی روح میں ایک تو ان کی مقامیت اور عمومیت کے مقابلے اختصاصیت ہے یعنی ان کے مضامین اور موضوعات کا تعلق عموما ایک محدود علاقے اور مقام سے بالاتر ہے اور اس لیے ان کے مضامین میں ایک خاص قسم کی اشاریت اور عوامیت پیدا ہوگئی لینی ایسے خاص اشارے ملتے ہیں جو اس ماحول سے باہر سب آدمی نہیں سمجھتے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اقامتی زندگی سے جو لوگ باخبر ہے ان کو علم ہے کہ ان میں قدرتی طور پر کچھ اصطلاحات آگئی تھیں جن کو بار بار استعمال کرتے ہیں۔ ان اشاروں سے کام لینے کی بدولت صدا کے دائرہ کار میں کچ تھوڑی سی کمی واقع ہوئی ہے۔ مگر رشید سے بہتر کوئی آدمی اس زندگی کو پیش کرنے
کی قابلیت نہیں رکھتا ۔
رشید احمد کے مضامین میں ایک وہ بات بھی ہے میں کو ایہام و اخفا کہ سکتے ہیں۔ یہ اس محدودیت کا مقامیت کا فوری نتیجہ ہے حس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے جہاں تک رشید احمد کے عام مضامین کی روح کا تعلق ہے اس میں وہ عناصراور بھی ملتے ہیں ایک عنصر اکبریت کا ہے یعنی کبر الہ آبادی کے پیغام اور طرز احساس فکر کی ایک جھلک مضامین رشید اور گنجہائے گرانمایہ میں موجود ہے۔ وہ اکبر سے بہت متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے مضامین میں اقبال کا طرزفکر اور طرز احساس ایک خاص مقام حاصل کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ن کی تحریروں میں۔ ابوالکلامیت بھی کسی قدر پائی جاتی ہے۔ اقبال احمد سہیل جوشبلی کے مداحوں میں سے تھے ان سے وابستگی اور ان کے طرز احساس کو اپنانے کی کوشش بھی رشید احمد کے یہاں ملتی ہے گویا یہ سارے مضامین کچھ اس مسلک سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں جن کی نمائندگی علیگڑھ سے باہرایک دوسرا گردہ کر رہا ہے ۔ اسی وجہ سے رسالہ آجکل کے ایک مضمون نگار نے رشید احمد پر مضمون لکھتے ہوئے کہا تھا کہ رشیداحد کے مضامین خارجی طور علیگڑھ سے تعلق رکھتے ہیں مگران مضامین کی روح علیگڑھ سے باہر تعلق رکھتی ہے ان میں آزادی خیال ہے جو علیگڑھ میں 1960 تک نہیں آئی تھی اور بعد میں بھی آہستہ آہستہ رہی اور دیر سے نکلی علیگڑھ میں عام رجحان انگریزوں کی حمایت اور تحریکات وقت کی مخالفت تھا ۔ 1960 کے بعد ایک نئی زندگی پیدا ہوئی جس کے ترجمان رشید احمد صدیقی نظر آتے ہیں مگر ان کا زہین اصل علیگڑھ یعنی سر سید کی توقعات سے بالکل مختلف ہے اور اس طرح وہ خود ان مضامین کی روح علیگڑھ سے باہر کی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔
رشید احمد اور مزاح
رشید احمد نے مزاح پیدا کرنے کے لیے جو مختلف طریقے اختیار کیئے ہیں وہ یہ ہیں ۔
ا ۔ وہ رعایت لفظی سے کام لیتے ہیں۔ واقعات سے زیادہ لفظی ہیر پھیر سے مزاح پیدا کرتے ہیں اور اس لفظی ہیر پھیر کے ساتھ ان کے یہاں ایک خالص ایمان اور فاضلانہ قسم کا انداز بیان بھی ہے جو ابو الکلام کے زیر اثر دکھائی دیتا ہے ۔ رشیداحمدکی مزاحیہ تصویروں میں سے بہت کم ایسی ہوتی ہیں جن کو مکمل دور کی بھر پور تصویروں کا درجہ دے سکیں وہ تصویروں کے خاکے اور خاکوں کی لکیروں سے تصویریں بناتے ہیں۔
-۲- رشیداحمد کے یہاں ایک چھبتا ہوا طنز بھی پایا جاتا ہے مگر بسا اوقات وہ اس طرز کی چھبن کو کامیاب نہیں بنا سکے یا کامیابی کے ساتھ موثر نہیں بناسکے کیونکہ ان میں خفا زیادہ ہوتی ہے اور کم فہم ہوتے ہیں اسی لیے رشید احمد کے طنزیات کو ان کے معترضوں نے گونگا طنزیہ قرار دیا۔ یعنی ایسا پیرا یہ بیان جواپنا صحیح مفہوم ادا نہیں کر سکتا
3- رشید احمد کے یہاں paradox بھی پا جاتا ہے مگروہ جس کا رخ واقعیت سے غیر واقعیت کی طرف
From reality to UNREALITY
کے کچھ نفسیاتی اسباب بھی ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ رشیداحمدکی تحریروں کو پڑھنے پر کیا اثر ہوتا ہے؟ آیا وہ گدگدی ہے
جو فرحت کے یہاں ہے) یا خنده واشگاف (جو پطرس
کے مضامین سے ہوتا ہے، یا تبسم زیر لب یا
دل کے کھل جانے کا سا انداز کیا ہوتا ہے۔
رشید احد کی تحریروں میں مختلف صلاحیتیں پائی جاتی ہیں ان کی تقریریں ہوتی ہیں اور پر پھر جلاتی بھی ہیں انہیں پڑھ دلوں میں سوزش بھی پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ زندہ بھی ہو جاتے ہیں۔ ان کے یہاں حریت فکر کے سامان بھی پائے جاتے ہیں۔ سو سائٹی کے وہ عناصر جن سے ان کو ضد ہے اور جدید تعلیم بیویاں ، مولوی اور افسر
یہ تینوں قسم کے لوگ جلتے ہیں اور عام لوگ جو آزادی کے قائل ہیں انہیں پڑھ کر زندگی پاتے ہیں۔
کہا جا جاتا ہے کہ رشید احمد کے یہاں وہ بنیادی درد مندی نہیں پائی جاتی جو علی مزاح نگار
کے یہاں ہوتی ہے۔ کیونکہ مزاح
دل محیط گریہ لب نا آشنائے خندہ ہے
،
ان کے یہاں درد مندی کا فقدان ہے۔ لیکن گنجہائے گرانما یہ میں اس کا فقدان نہیں اس کتاب سے ان کی طبیعت اور شخصیت کا ایک اور وصف نمایاں ہو جاتا ہے اور وہ ہے شفقت اورمحبت جس کے سائے میں وہ نہ بیٹھے ہیں یہ یہانتک کہ اپنے سے چھوٹوں، اپنے شاگردوں، گھر کے حجام، دھوبی اور دیگر افراد جن سے ان کا واسطہ پڑتا ہے سب کے لیے ان کے یہاں جذبات پائے جاتے ہیں۔ ان کے دوسرے مضامین جن میں ان جذبات کا فقدان ہے بال بیدرو معلوم ہوتے ہیں اور بیدردی سے وار کرتے ہیں۔ یہ دراصل ان کے خلوص کا تقاضا ہے جن چیزوں کو وہ ناپسند کرتے ہیں ان پردار بھی بڑے زور سے کرتے ہیں۔ اگرچہ افضا کی وجہ سے وار اتنے موثر نہیں ہوتے۔ گنجہائے گرانمایہ کے مضامین میں دو بڑے جذبے ابھرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
1- ایک جذبہ رفاقت ہے اور دوسرا احساس عظمت
یہ دونوں جذبے گنجہائے گرانمایہ کے بنیادی عناصر میں اور رشید احمد کی عظمت کا ثبوت بھی انہیں مضامین میں ملتا ہے۔ شاہ سلیمان اور ایوب “پر جو مضمون ہے اور اسی طرح درجہ بدرجہ جو دیگر مضامین میں وہاں ذاتی انتہا سے بڑی بھر پور حقیقت نگاری کی ہے۔ چھوٹے چھوٹے واقعات سے تصویریں بنائی گئی ہیں۔ گنجہائے گرانمایہ میں اصل سطح نظر شخصیت کو مہیا کرنا اور اس کی پوری شخصیت کو ابھارتا ہے ۔ اس کا مقابلہ چند ہمعصر سے کیا گیا مگر دونوں میں فرق ہے جو دونوں مصنفین کے مزاج کا فرق ہے۔ چند ہمعصر میں شخصیت کی ایک ملک دکھا کر اس کے عقائد کو ابھارا ہے ” گنجہائے گرانایہ ” کا مقصود جیتی جاگتی شکل میں اس شخص کو پیش کرتا ہے۔ اور چند ہمعصر میں ان عقائد کو پیش کرنا مقصود تھا جن سے مولوی عبدالحق کو لگاؤ تھا۔ شخصیت نگاری میں پر چین کاری بڑی کام آنے والی چیز ہے۔ یہ وہ فن ہے جس سے مغلیہ عہد میں چھوٹے چھوٹے رنگ کے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک جز بنا یا تھا۔ یہ چیز عمارت کے علاوہ شخصیت انگاری میں بھی کام آتی ہے یعنی کوئی ٹکڑا کسی جگہ کا اور کوئی کسی جگہ کا لے کر ان سب کو ملا کر اس طرح ترتیب دیا جائے کہ شخصیت کا پورا نقشہ سامنے آجائے ۔ رشید احمد کو ایک بڑے ادبی پر چین کار کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ وہ معمولی جزئیات سے لے کر ایک شخصیت کا تصور دلادیتے ہیں ۔ یہ ان کے مضامین گنج کا ایک اثر ہے. گنجہائے گرانما یہ کے مضامین چونکہ مرنے والے کی عقیدت اور رفاقت کے جذبے سے ابھر ہیں میں اس لیے گنج کا انداز بیان ان زیادتیوں اور بے اعتدالیوں سے پاک ہے جو ان کے دیگر مضامین میں پائی جاتی ہیں۔ یہاں قلم ہونے والے کے
وقار کے خیال سے سنبھل سنبھل کے چلتا ہے اور نسبتا یہ تحریریں زہریلے طنز سے خالی ملتی ہیں۔
رشید احمد کے یہاں ایک جھنجھلاہٹ ایسی بھی نمایاں ہو جاتی ہے کہ وہ ادیب سے زیادہ ایک ایک طرفدار آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ مثلا محمد علی پر جو مضمون ہے اس میں رشید احمد بے ضرورت جذباتی ہو گئے ہیں اور محمد عل کی موت کا انتقام ان کے دشمنوں سے لیتے ہیں جو ایک ادیب کا کام نہیں ایک زمانے میں لوگ ان سے بہت مخالف ہو گئے گھر رشید احمد بدستور ان کے ہمدرو اور ان سے محبت کرنے والے رہے اور ان کی وفات پر ان کے مخالفوں سے بدلہ لینے کی کوشش کی۔ مقصود یہ کہ وہ ان مضامین میں ہیجانی صورت SENTIMENTAL اختیار کرلیتے ہیں جن سے لوگوں کو ان کے مضامین کے ہمہ گیر اثر سے انکار کا موقعہ ملتا ہے۔
گنج ہائے گرانمایہ کو شخصیت نگاری کے معاملے میں جو رتبہ حاصل ہے اور اس کی جو اہمیت ہے۔ اس کا مقابلہ اور کتابوں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ جن میں ایک چند ہمعصر ہے مگر رشید احمد اور عبدالحق کی تحریریں اور شخصیت مختلف ہے۔
بحیثیت شخصیت نگار، رشید احمد ، عبدالحق سے زیادہ کامیاب ہیں ۔ ایک اور کتاب
” یاد ایام ” ہے مگر اس میں تصویریں نہیں معمولی خاکے ہیں اور معمول عادتیں اور تھوڑ بہت واقعات دکھا کر شخصیت کھانے کی کوشش کی گئی ہے “مردم دیدہ ” حسرت کا شمیری کی کتاب ہے اس میں بھی اور کسی حد تک ” خون بہا ”
میں حکیم احمد شجاع کی شخصیت نگاری بھی ملتی ہے۔