روشن بام ہے چاند اترا ہے
روشن بام ہے چاند اترا ہے
خنداں تارے ، سرخ رومالوں والے لڑکے ، استقبالی محرابوں کے رستے پر
صف بستہ ہیں ،
دف پر ضربت ، قصر میں نوبت
اور میدان میں جلتی گندھک کی چنگاری جب سمٹی تو گھر کی چوکھٹ کے
سہرے کا پھول بنی ہے
ڈھولک پر اس ساعت کی انگشت حنائی جو فاتح ہے
ہمسائے میں چاند اُترا ہے
اور ادھر اک لڑکی جس کا پہلی خواہش کی خوشبو سے مہکا آنگن پگھلا بچپن
خالی بانہوں میں سپنوں کے بجتے کنگن
جلتا ہاتھ سر ہانے رکھ کر ، اس امید پہ جاگ رہی ہے
مہندی بانٹنے والی ہمسن یار سہیلی اس کے گھر بھی آئے گی