ریت سمندر سے ، موتی برساتوں میں
نور اجالے دل نے کندن راتوں میں
شعلوں کو زنجیر کروں گا پھر ان سے
دل کو دھنوں گا خوں ہوتے جگراتوں میں
زرد عفریتوں کو بستی میں راہ دی ہے
خود کو چھوڑ آئے ہیں کالی گھاتوں میں
سانس کی نگری میں دل نے کیا پایا ہے
بات بنانا آتی جاتی باتوں میں
ہفت سمندر ، ہفت افلاک اور ہفت اقلیم
موجیں درد کی بہتی ہیں ان ساتوں میں
ارسلان راٹھور