زندگی ظُلم سہی، جبر سہی، غم ہی سہی

زندگی ظُلم سہی، جبر سہی، غم ہی سہی
دل کی فریاد سہی، روح کا ماتم ہی سہی

ہم نے ہر حال میں جینے کی قسم کھائی ہے
اب یہی حال مقدر ہو تو شکوہ کیوں ہو
ہم سلیقے سے نبھا دیں گے جو دن باقی ہیں
چاہ رسوا نہ ہوئی، آہ بھی رسوا کیوں ہو

ہم کو تقدیر سے بے وجہ شکایت کیوں ہو
اسی تقدیر نے چاہت کی خوشی بھی دی تھی
آج اگر کانپتی پلکوں کو دیے ہیں آنسو
کل تھرکتے ہوئے ہونٹوں کو ہنسی بھی دی تھی

ہم ہیں مایوس مگر اتنے بھی مایوس نہیں
اک نہ اک دن تو یہ اشکوں کی لڑی ٹوٹے گی
اک نہ اک دن چھٹیں گے یہ غموں کے بادل
اک نہ اک دن تو اجالے کی کرن پھوٹے گی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×