زیاں کی کوکھ میں پلتا جہاں دکھائی دے
نظر اٹھا کہ تجھے آسماں دکھائی دے
چراغ بجھنے لگے ہیں گمان بڑھ رہا ہے
قریب ہے کہ دھواں ہی دھواں دکھائی دے
خدا تو وہ ہے جسے ڈھونڈنا نہ پڑتا ہو
جہاں میں دیکھنا چاہوں وہاں دکھائی دے
میں کیا کروں مرے دل کو وہ پھول چاہیے ہے
سرِ بہار بھی جس پر خزاں دکھائی دے
حسین رخصت آخر کا یہ تقاضا ہے
کہ عمر بھر کا سفر رائیگاں دکھائی دے