ستارے مضمحل تھے اور خدائی سو رہی تھی

ستارے مضمحل تھے اور خدائی سو رہی تھی
مگر وہ صبح جو صحرا میں صادق ہو رہی تھی

فرشتے عید ملنے آگئے افتادگاں سے
یکایک ہنس پڑی وہ زندگی جو رو رہی تھی

زمانہ ہم سماعت تھا حرا کے پتھروں کا
دہان نور سے پہلی تلاوت ہو رہی تھی

مصلے پر مقدس ، نقرئی اشکوں کی رم جھم
شب آئندہ گاں کی بھی سیاہی دھو رہی تھی

پشیمانی کو میثاق ازل یاد آچکا تھا
فراموشی صنم خانوں سے پتھر ڈھو رہی تھی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×