سوانح نگاری کا فن

سوانح نگاری کا فن

دنیا میں آج تک جو کچھ کہا یا یا لکھا گیا وہ کہنے والے یا لکھنے والے نے یا تو اپنے بارے میں کہا اور لکھا یا پھر اس کائنات کے بارے میں جو اس کے گرد پھیلی ہوئی ہے۔ پہلی شکل میں یہ آپ بیتی ہوئی اور دوسری شکل میں جگ بیتی۔ آپ بیتی اور جگ بیتی سوانح ہی کے دو روپ ہیں۔ فرصت کے زمانے کے لوگ جب سردیوں کی لمبی رات کاٹتے الاو کے گرد بیٹھتے تھے تو ایک دوسرے سے کہتا تھا، بھائی کچھ سناؤ کہ وقت گزرے۔ وہ پوچھتا تھا آپ بیتی سناؤں کہ جگ بیتی۔ عام طور جواب ملتا تھا کہ آپ بیتی تو روز ہی بیتی ہے ، جگ بیتی سناؤ ۔ یہ جگ بیتی سوال ہے اور آپ بیتی خود نوشت سوانح دیکھا آپ نے سوانح کا دائرہ کتنا وسیع ہے۔ آئیے پہلے یہ سمجھنے – کی کوشش کریں کہ سوائح ہے کیا۔

سوانح کی تعریف کرتے ہوئے کارلائل نے اسے فرد کی داستان حیات جتایا ہے۔ ایمرسن کا خیال ہے کہ جب کوئی عظیم انسان عظیم تر انسان کی زندگی کی تشریح کرتا ہے تو سوانح عمری وجود میں آتی ہے۔ لیکن اس کے بر عکس لائف آف اسٹرلنگ” کے مصنف نے ایک دعوا کیا ہے اور اپنی تصنیف میں اسے ثابت کر دیا ہے۔ وہ یہ کہ کسی معمولی انسان کے سفر زندگی کی روئداد بھی ایسی دلکشی کے ساتھ پیش کی جاسکتی ہے کہ وہ بڑے بڑے آدمیوں کی توجہ کا مرکز بن سکے۔ اس کے باوجود ہے کہ جن ہستیوں نے ناقابل فراموش کارنامے انجام دیے ان کے بارے میں لوگ زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے ہیں ۔ ولیم کو پر کا ارشاد بجا ہے کہ وہ بے حقیقت لوگ جو بھلائے جانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں انھیں زندہ رکھنے کی کوشش حقیقت بے سود ہے۔ سوانح عمری ایک ایسی تصنیف ہے جس میں کسی شخصیت کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کی ایسی تصویر پیش کی جاتی ہے جو ہر لحاظ سے مکمل ہو، اس میں پیش کیے گئے واقعات قارئین کے لیے پرکشش ہوں، انداز بیان پر تاثیر ہو۔ جو سوانح نگار ان شرطوں کو پورا کرے اسے کامیاب سوانح نگار کہا جا سکتا ہے۔

سواح کی اہمیت دیگر اصناف ادب کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ سوانح سے لطف بھی حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہ فکشن کی طرح بلکہ اس سے زیادہ دلچسپ ہوتی ہے۔ اس میں افادیت بھی ہوتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے ہمیں عظیم شخصیتوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہے۔ عظیم سائنس داں ، مذہبی رہنما ، مفکر محب وطن، نڈر سپاہی، سماجی کارکن جن کے احسانات سے دنیا گراں بار ہے انھیں یاد کرنے کا ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اس سے بہتر طریقہ کیا ہو سکتا ہے کہ ہم ان کی سوانح کا مطالعہ کریں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق فرماتے ہیں کہ عظیم انسانوں کے پر عظمت کارنامے پڑھ کر ہمارے دلوں میں بھی اُن جیسا بنے اور کچھ کر گزرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔

سواع نگاری کا فن بڑا نازک اور بہت دشوار فن ہے۔ اس کی دشواریاں ناول و افسانہ سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ کسی شخصیت کی سوانح مرتب کرنا اور پوری طرح اس سے عمدہ بر آہو جاتا ایسا ہی ہے جیسے کوئی تلوار کی دھار پر چل کر یہ سلامت پار اُتر جائے۔ آئیے دیکھیں کہ سوانح لکھنے میں مصنف کو رکن دشوار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

سوانح نگار کو سب سے پہلے صاحب سوانح کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اسے دیکھنا چاہیے کہ جس کی سوانح لکھنے کا وہ ارادہ کر رہا ہے وہ شخصیت اس قابل ہے یا ۔ پھر یہ دیکھے کہ وہ خود اس کی زندگی کے تمام پہلووں سے پوری واقفیت رکھتا ہے یا نہیں۔ یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ مصنف اس شخصیت کے تمام پہلووں پر روشنی ڈال سکتا ہے یا نہیں۔ اگر اس کے دل میں شخصیت کا احترام ہے تو وہ اس کے عیبوں کو چھپائے گا۔ اس سے عداوت ہے تو خوبیوں کو کم کر کے اور عیبوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے گا۔

مصنف میں دیانت داری ، جفاکشی اور چھان بین کا شوق نہ ہو تو وہ ہرگز کامیاب سوانح نگار نہیں بن سکتا۔ اگلا مسئلہ مواد کی فراہمی کا ہے۔ کسی شخصیت کے بارے میں کن ذرائع سے کیا کیا مواد حاصل ہو سکتا ہے، قلم اٹھانے سے پہلے مصنف کو یہ ساری باتیں جاننی چاہئیں۔ ان ساری شرطوں پر غور کرنے اور ان پر پورا اُترنے کے بعد ہی
مصنف کو اپنے کام کا آغاز کرنا چاہیے- یہاں ایک آخری بات یہ ذہن میں رکھنے کی ہے کہ سوانح عمری کے علاوہ می ایک شے خود نوشت سواع بھی ہے۔ یعنی وہ سوانح جو مصنف خود اپنے بارے میں. لکھے۔ اردو میں سواع عمریاں بھی موجود ہیں اور خود نوشت سواع بھی۔
سوانح نگاری کا آغاز و ارتقا ابتداء دکن میں ہوا۔ وہاں کی مثنویوں میں سوانح کے اولین نقوش دیکھے جاسکتے ہیں ۔ نصرتی نے اپنے والد اپنے مربی علی عادل شماہ اور دیگر شخصیتوں کی سیرت و سوانح نہایت عمدگی سے بیان کی ہے۔ ان کے علاوہ روی ذوقی اور دیگر مثنوی نگاروں نے بھی اس طرف توجہ کی ہے۔ اس کے بعد شعراے اردو کے تذکروں کا دور شروع ہوتا ہے۔ تذکرہ نگاروں نے بے حد اختصار سے کام لیا۔ اکثر نے تو شاعر کا نام یا تخلص لکھا اور نمونے کے طور پر ایک شعر پیش کر دیا ۔ سیرت و سوانح نگاری کو وہ اپنی ذمہ داری خیال نہیں کرتے تھے۔ محمد حسین آزاد کی آب حیات اردو شاعروں کا تذکرہ بھی ہے اور اردو اور ادب کی تاریخ بھی۔ لیکن ان دونوں سے زیادہ اہم اس کی ایک اور خصوصیت ہے۔ انھوں نے بہت سی ادبی شخصیتوں کی سیرت و سوانح بھی پیش کی ہے۔ تحقیقی نقطہ نظر سے اس کا پایہ بہت بلند نہ کسی لیکن یہ اعتراف ضروری ہے کہ اردو ادب کی بہت سی شخصیتیں آب حیات میں سانس لیتی نظر آتی ہیں۔
آزاد کے زمانے میں ہندوستان انگریزی تسلط میں چلا گیا تھا اور ہمارے بزرگ ادیب ادب کے انگریزی نمونوں سے متاثر ہو رہے تھے۔ ان بزرگوں میں مولانا حالی اور علامہ شبلی دو ایسی شخصیتیں ہیں جنھوں نے انگریزی نہ جانے کے با وجود ادب کے انگریزی نمونوں سے شناسائی حاصل کی اور اپنی تصانیف سے اردو ادب کے دامن کو وسیع کیا۔ ان دونوں نے سواع نگاری کی طرف بھی توجہ کی۔ یہاں ان دونوں کے سوا کی کارناموں کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔

مولانا حالی کی سوانح نگاری

اردو ادب میں حالی کی کئی حیثیتیں ہیں۔ وہ شاعر ہیں، مقالہ نگار ہیں ، نقاد ہیں اور سوانح نگار ہیں لیکن تنقید اور سوانح دو اصناف ایسی ہیں جو ان کے احسان سے گراں بار ہیں۔ انگریزی نہ جاننے کے باوجود انھوں نے انگریزی ادب سے فیض اٹھایا اور اپنی تصانیف سے اردو ادب کو وسعت دی۔
مولانا حالی کے زمانے میں ملک کے سیاسی حالات نے جو کروٹ لی اس کا مولانا نے گہری نظر سے مشاہدہ کیا۔ انھوں نے ہوا کا رخ پہچانا اور وقت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس اصول کے عمل پیرا تھے کہ جدھر کو زمانہ پھرے تم بھی ادھر کو پھر جاؤ۔ انھوں نے سرسید کو اپنا رہبر مانا اور اپنے قلم سے اردو ادب میں انقلاب پیدا کرنے کی سعی کی۔ اپنی قوم کو بیدار کرنے اور اس کا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کے لیے مولانا حالی ضروری خیال کرتے تھے کہ قوم کے محسنوں کی سواع لکھی جائیں۔ اس ضرورت پر انھوں نے بار بار زور دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے چند

بیوگرافی علم اخلاق کی نسبت ایک اعتبار سے زیادہ سود مند ہے کیونکہ علم اخلاق سے صرف نیکی اور بدی کی ماہیت معلوم ہوتی ہے اور بیو گرافی سے اکثر نیکی کے کرنے اور بدی سے بچنے کی نہایت زبردست تحریک دل
میں پیدا ہوتی ہے۔ بیوگرافی چلا چلا کر اور سمندر کے طوفان کی طرح غل مچا کر یہ آواز دیتی ہے کہ جاؤ اور تم بھی ایسے ہی کام کرو۔

چنانچہ مولانا نے سوانح نگاری کی وادی میں قدم رکھا۔ انھوں نے حیات سعدی یادگار غالب اور حیات جاوید تین سوا بھی کتابیں لکھیں جن سے اردو ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔

حیات سعدی : مولانا حالی کی پہلی سوانحی تصنیف ہے جو ۱۸۸۱ء میں مکمل ہوئی۔ اس سلسلے کی پہلی اہم بات یہ ہے کہ سوانح عمری لکھنے کے لیے سعدی جیسی شخصیت کا انتخاب مولانا حالی کے لیے نہایت مناسب تھا۔ فارسی ادب سے انھیں شغف تھا اور کلام سعدی کا مطالعہ انھوں نے نہایت توجہ سے کیا تھا۔ سعدی اور حالی کے مزاج میں بھی مطابقت ہے۔ دونوں اپنی اپنی زبان کے قادر الکلام شاعر ہیں۔ دونوں ادب اور اخلاق کے گہرے رشتے پر ایمان رکھتے ہیں۔ دونوں سادگی بیان کے قائل ہیں۔ اس ذہنی یگانگت کے باوجود مولانا حالی حیات سعدی کا حق ادا نہیں کر پائے اور بہت اختصار سے کام لیا۔ اس معاملے میں ان کی دشواری کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا معلومات کے جتنے ذریعے ہو سکتے تھے حالی نے ان سب کو کھنگالا – تمام تذکروں کا مطالعہ کیا اور جتنا مواد دستیاب ہوا اسے استعمال کیا۔ مولوی عبدالحق نے درست فرمایا ہے کہ شہد کی طرح بوند بوند جمع کر کے حالی نے اپنی کتاب کا مواد اکٹھا کیا۔ البتہ بعض کوتاہیاں کھنکتی ہیں، مثلا سعدی کے مذہبی عقائد کو غیر

 

ضروری بتا کر قلم انداز کردیا ۔
مولانا حالی سعدی سے بہت عقیدت رکھتے تھے اس لیے جابجا ان کی وکالت کی ہے اور ان کی لغزشوں کو حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
غالب مولانا حالی کی دوسری سوانحی کتاب ہے جسے شیخ اکرام نے حالی کی شاہکار تصنیف کہا ہے۔ یہ ۱۸۹۶ء میں مکمل ہوئی۔ وہ یادگار
غالب کی شاعرانہ عظمت کے قائل تھے۔ اسی لیے ان کی سوانح پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ غالب کی زندگی پر لکھنے میں ایک طرف    کچھ آسانیاں تھیں تو دوسری طرف کچھ دشواریاں بھی تھیں۔ آسانی یہ تھی کہ غالب سے مصنف کا عقیدت مندی کا تعلق تھا اور اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ غالب کے سلسلے میں مواد کی فراہمی چندان دشوار نہ تھی لیکن اس میں یہ نزاکت بھی تھی کہ کسی ہم عصر کے بارے میں لکھنا طرح طرح کے اعتراضات کو دعوت دیتا ہے۔ جفا کشی مولانا حالی کی عادت تھی۔ انھوں نے غالب کی تمام تصانیف جمع کر کے ان کا مطالعہ کیا۔ غالب سے قریبی تعلق رکھنے والوں سے رابطہ قائم کیا اور غالب کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ حالی نے غالب کی زندگی کے حالات، نجی باتوں اور اس عظیم شاعر کے لطائف و ظرائف کی طرف کم توجہ کی اور ان کی تصانیف کے تنقیدی مطالعے کی طرف زیادہ۔ اس کے باوجود یہ کتاب غالبیات کے سلسلے کی پہلی اہم کتاب ہے۔
حیات جاوید سرسید کی سوانح عمری ہے جو ۱۸۹۳ء میں شروع ہو کر 1901ء میں تکمیل کو پہنچی۔ یہ میں گزری۔ اس کتاب کی تیاری کے مات سخت محنت سلسلے میں حالی نے علی گڑھ کا سفر کیا اور یہاں رہ کر تمام ضروری مواد سے فائدہ اٹھایا۔ حالی کی تینوں سوانحی تصانیف میں یہ سب سے مکمل اور بھر پور کتاب ہے۔

مولانا حالی کو عقیدت تو سعدی سے بھی تھی اور غالب سے بھی لیکن سرسید سے وہ بے حد متاثر تھے۔ مذہبی معاملات میں تو وہ سرسید سے اختلاف کرتے تھے لیکن ان کے ادبی نظریات سرسید کے افکار کا پرتو ہیں۔ مروت حالی کا مزاج تھا۔ سرسید کے سلسلے میں تو انھوں نے کچھ زیادہ ہی مردت سے کام لیا ہے اور ان کی خامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے علامہ شبلی نے حیات جاوید کو مدلل مداحی اور کتاب المناقب کہا ہے۔ شبلی یہ کہنا
چاہتے ہیں کہ حالی نے اس کتاب میں انتہائی مدح سرائی سے کام لیا ہے۔ مولانا حالی نے حیات جاوید کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں حالات زندگی پیش کیے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں سرسید کے کارناموں پر تفصیلی ریویو ہے، حالانکہ پہلے حصے میں اس کا مختصر ذکر ہو چکا تھا۔ اس طرح تکرار کا عیب بھی پیدا ہو گیا اور کتاب کی ضخامت بھی بہت بڑھ گئی۔ سرسید نے طویل عمر پائی اور اپنی عمر کے ایک ایک پل کو استعمال کیا۔ چنانچہ ان کے کارنامے بے حساب ہیں۔ کسی مختصر کتاب میں ان کو سمیٹ لینا ممکن ہی نہ تھا۔

مجموعی جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ سوانح نگاری کی صنف کو حالی کی ذات سے بہت فائدہ پہنچا۔ ان سے پہلے اردو میں اس صنف کی طرف توجہ نہیں ہوئی تھی صرف سیرت پاک کے چند نمونے موجود تھے۔ حالی نے تین سوانح عمریاں پیش کیں۔ پہلی کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری سوانح عمری لکھی تو ان کا فن کئی ارتقائی مراحل سے گزر چکا تھا۔ اس وقت تک مغربی ادب کی واقفیت بھی بڑی حد تک عام ہو گئی تھی۔ چنانچہ حیات جاوید لکھتے وقت انھوں نے سرسید کے بارے لٹریچر میں فرمایا کہ ”وہ ہم میں پہلا شخص ہے جس نے مذہبی لڑیچر میں نکتہ چینی کی بنیاد ڈالی ہے۔ اس لیے مناسب ہے کہ سب سے پہلے اس کی زندگی میں اس کی پیروی کی جائے اور نکتہ چینی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ اس اعلان کے باوجود سعدی، غالب اور سرسید کسی کے بھی عیبوں کو وہ عیب بتانے کے لیے تیار نہیں۔ مروت ان کا مزاج ہے اور خطا پوشی ان کی عادت لکھتے ہیں ” ابھی وقت نہیں آیا کہ کسی شخص کی بیو گرافی کرٹیکل طریقے سے لکھی جائے اس کی خوبیوں کے ساتھ اس کی کمزوریاں بھی دکھائی جائیں اور اس کے اعلا خیالات کے ساتھ اس کی لغزشیں بھی ظاہر کی جائیں۔“ یہ مولانا حالی کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ دوسری بات یہ کہ حالی مذہب و اخلاق پر زیادہ زور دیتے ہیں، کسی شخصیت ، کے کارناموں کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں، اس کی زندگی عادت مزاج ، نجی باتیں نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ حالی نے تینوں سوانح عمریوں میں سادہ و سهل زبان استعمال کی ہے۔ یادگار غالب کی نثر میں تو احساس کی کار فرمائی کسی حد تک نظر آتی ہے باقی دونوں کتابوں میں صرف خیالات ہیں جو سادہ زبان میں پیش کر دیے گئے ہیں۔ مولانا حالی کا یہ کارنامه بهر حال نا قابل فراموش ہے کہ اردو میں سوانح نگاری کا شوق عام کیا اور اس صنف کی اہمیت واضح کی۔

علامہ شبلی کی سوانح نگاری:

اردو سوانح نگاری میں علامہ شبلی کا بڑا حصہ ہے۔ علی گڑھ جانے سے پہلے وہ مولوی شبلی تھے اور بس۔ سرسید نے اس جوہر قابل کو پہچانا اور اپنے کالج میں پروفیسر بنا دیا۔ یہاں سرسید کی صحبت، سرسید کے کتب خانے اور کھلی ہوئی فضا نے شیلی کو مولوی سے ایک زبر دست صاحب قلم بنا دیا ۔ اسلام کی گم شدہ عظمت یاد دلانے کے لیے انھوں نے سلسلہ نامور ان اسلام کے تحت متعدد سوانح عمریاں لکھنے کا منصوبہ بنایا۔ ان میں خلیفہ مامون الرشید امام ابو حنیفہ، فاروق اعظم اور سرور کائنات کی سوانح عمریاں شبلی کا نا قابل فراموش کارنامہ ہیں۔

المامون (۸۹-۱۸۸۷ء) اس سلسلے کی پہلی کتاب ہے۔ یہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلے حصے میں مامون الرشید کی ولادت تعلیم و تربیت، ملک کی اندرونی جنگیں اور متعدد فتوحات شامل ہیں۔ دوسرا حصہ زیادہ اہم ہے۔ اس میں مامون کے اخلاق و عادات کا تفصیلی بیان ہے۔ کتاب کے مطالعے سے مصنف کی محنت، ذوق جستجو اور دیانت داری کا اندازہ ہوتا ہے۔ مامون ، شبلی کی پسندیدہ شخصیت ہے لیکن دیانت داری کا اتنا خیال رکھا گیا ہے کہ شبلی نے اس کی کمزوریوں پر پردہ نہیں ڈالا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں “اس غیر متوقع فتح کی خوشی نے مامون الرشید جیسے رقیق القلب انسان کو بھی سنگدل بنادیا کہ اس نے اپنے بھائی کے خون آلود سر کو مسرت سے دیکھا اور جوش خوشی میں سجدہ شکر ادا کیا۔ “ اسی طرح اس کی دوسری کمزوریوں پر بھی روشنی ڈالی ہے مثلا عفو و در گزر کی حد سے بڑھی ہوئی عادت اپنے فرائض کی طرف سے لاپروائی کنیزوں اور لونڈیوں کی طرف رجحان۔ دلچسپ قصوں اور حکایتوں نے کتاب کو دلچسپ بنا دیا ہے حد سے بڑھی ہوئی تفصیل البتہ کہیں کہیں ناگوار ہوتی ہے۔ کتاب کا اچانک خاتمہ بھی کھٹکتا ہے۔

سیرۃ النعمان (۱۸۹ء) امام ابو حنیفہ کی سوانح عمری ہے۔ اس کے بھی دوھے ہیں ۔ پہلا حیات اور دوسرا ان کے کارناموں پر مشتمل ہے۔ امام کے شاگردوں کا بھی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ علامہ شبلی حنفی مسلک پر کاربند تھے اور امام ابو حنیفہ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ امام کے بارے میں ان کے معتقدوں میں طرح طرح کے قصے مشہور تھے مگر شبلی نے ان سب کو قلم انداز کیا اور صرف انہی باتوں کو کتاب میں بیان کیا جو تحقیق کی کسوٹی پر پوری اتریں۔

الفاروق اس سلسلے کی تیسری کتاب ہے جو نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کی عظیم شخصیت حضرت عمر فاروق کے بارے میں ہے۔ ان کی زندگی سادگی شجاعت اور دیانت داری کا شاندار مجموعہ تھی۔ ان کا سیاسی شعور بھی بے مثال تھا۔ انھوں نے ایسا ملکی نظام قائم کیا جو سیاست عالم کی تاریخ میں آج تک یاد گار ہے۔ اس کتاب کو مکمل کرنے کے سلسلے میں علامہ شبلی کو کئی سخت مرحلوں سے گزرنا تھا۔ ممکن ہی نہ تھا کہ اس کتاب میں سرکار دو عالم کا ذکر نہ آتا یا حضرت ابو بکر صدیق کا ذکر نہ آتا اور اندیشہ تھا کہ ان عظیم شخصیتوں کے مقابلے میں فاروق اعظم کی عظمت کا سورج گہنا جاتا۔ مگر شبلی ان مشکل مقامات سے بڑی خوش اسلوبی سے گزرے ہیں۔ حضرت عمر کے تدبر ملکی انتظام ان کی نجی زندگی، ذاتی قابلیت و سیرت ، فطری سادگی ، علمی رجحانات جیسے تمام پہلووں پر انتہائی فنی پختہ کاری کے
ساتھ روشنی ڈالی ہے۔

الغزالی اور سوانح مولانا روم قیام حیدر آباد کے زمانے میں ۱۹۰۲ء میں لکھی گئیں۔ اس زمانے میں شبلی کی پوری توجہ علم الکلام کی طرف تھی۔ اس موضوع پر مواد اکٹھا کرنے کے دوران امام غزائی اور مولانا روم کی سوانح سے متعلق کافی معلومات دستیاب ہو گئی اور مصنف نے فیصلہ کیا کہ پہلے ان دونوں کی سوانح عمریاں شائع کر دی جائیں۔ یہ دونوں کتابیں فن سوانح نگاری کی کسوٹی پر
پوری نہیں اترتیں۔

 

(1910ء) سیرۃ النبی : شبلی کے سوانحی سلسلے کی آخری مگر سنہری اور تابناک کڑی ہے۔ یہ کتاب اس وقت لکھی گئی جب مسلسل لکھنے کے بعد ان کے فن پر پوری طرح نکھار آچکا تھا۔ سوانح نگاری کے فن پر انھیں پوری دسترس حاصل ہو گئی تھی اور نثر نگاری میں وہ اپنے تمام ہم عصروں سے سبقت لے جاچکے تھے۔ اپنی اس معرکہ آرا آخری تصنیف کو شبکی اپنی زندگی کا حاصل اپنے فن کی معراج اور توشہ آخرت خیال کرتے تھے۔ کتنے فخر سے فرماتے ہیں :

عجم کی مدح میں عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے چندے مقیم آستان غیر ہونا تھا
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتم”
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا

شیلی بڑی یکسوئی کے ساتھ اس طرف متوجہ ہوئے۔ معتبر مواد فراہم کیا۔ دشمنان اسلام کے اعتراضات کے دندان شکن جواب تلاش کیے اور جب لکھنے بیٹھے تو فصاحت و بلاغت کا دریا بہا دیا۔ سیرۃ النبی کے بیشتر حصوں سے شعریت چھلکی پڑتی ہے۔ درست کہا گیا کہ سیرۃ النبی کا پہلا حصہ دماغ سے اور دوسرا دل سے لکھا گیا۔ افسوس یہ معرکہ آرا کتاب مکمل نہ ہو سکی۔

مجموعی جائزہ لیا جائے تو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ سوانح نگاری میں اولیت کا تاج تو مولانا حالی کے سر پر ہی سجانا پڑتا ہے لیکن بعض معاملات میں علامہ شیلی ان سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ ”یادگار غالب میں تو لطف زبان موجود ہے مگر باقی دونوں ا سوانح عمریاں اس سے محروم ہیں۔ شیلی کی زبان میں بڑی دلکشی ہے۔ ان کی تحریروں کوار سے قاری کو ادبی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ شیلی کی سوانح عمریوں کو اس لیے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی کہ انھوں نے بے حد برگزیدہ ہستیوں کا انتخاب کیا۔ سرور کائنات حضرت عمر فاروق امام ابو حنیفہ ایسی شخصیتیں ہیں کہ ان کا نام آتے ہی سر احترام سے جھک جاتا ہے۔ امام غزالی
اور مولانا روم بھی کچھ کم لائق احترام نہیں۔ علامہ شبلی نے ہر سوانح پر بے حد محنت کی ہے، بہت تلاش و تحقیق سے کام لیا ہے اور نہایت شگفتہ زبان اختیار کی ہے۔ مہدی الافادی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ کسی زبان میں اس سے بہتر مجموعۂ خیال ممکن نہیں۔

 

ڈاکٹر سنبل نگار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *