سوچتا ہوں کہ تمہیں نظم کا پیکر دے دوں

“تم”

سوچتا ہوں کہ تمہیں نظم کا پیکر دے دوں

نظم ایسی کہ جسے پڑھ کے کوئی پھونکے تو
دل میں اترے ہوئے زخموں کو قرار آ جائے

عہدے دوراں میں تعصب کی خزاں پر جیسے
چادرِ امن کو پھیلاتی بہار آ جائے

سوچتا ہوں کہ تیرے عارض و گیسو کے عوض
چاند تاروں سے بھری جھولی خدا کو دے دوں

تیری سانسوں کی مہک سے ہو جہاں میں خوشبو
اور کھلتے ہوئے سب پھول قضا کو دے دوں

دل کی حسرت ہے تری بانہوں میں گزرے یہ حیات
جیسے آغوشِ محبت میں وفا پلتی ہے

تیری قربت سے مرے درد و الم کے گھر میں
حبس آلودہ دریچوں سے صبا آتی ہے

جانِ جاں، جانِ وفا، جانِ سخن، جانِ حیات

سلسلے تم سے محبت کے رہیں گے لیکن
چند لمحوں کی رفاقت میں بچھڑ جائیں گے
اور اک روز ہم اس عالمِ ہاؤ ہو سے
اپنی خوشبو کو سمیٹیں گے، گزر جائیں گے

عباد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *