اشکوں میں جو پایا ہے وہ گیتوں میں دیا ہے
اس پر بھی سُنا ہے کہ زمانے کو گِلا ہے
جو تار سے نکلی ہے وہ دُھن سب نے سنی ہے
جو سانس پہ گزری ہے وہ کس دل کو پتا ہے
ہم پھول ہیں اوروں کے لیے لائے ہیں خوشبو
اپنے لیے لے دے کے بس اک داغ ملا ہے!
اشکوں میں جو پایا ہے وہ گیتوں میں دیا ہے
اس پر بھی سُنا ہے کہ زمانے کو گِلا ہے
جو تار سے نکلی ہے وہ دُھن سب نے سنی ہے
جو سانس پہ گزری ہے وہ کس دل کو پتا ہے
ہم پھول ہیں اوروں کے لیے لائے ہیں خوشبو
اپنے لیے لے دے کے بس اک داغ ملا ہے!
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ